پنجاب میں سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹی کی تنظیمیں اور اقلیتی مذاہب کی تنظیمیں آج کل مقامی حکومتوں کے نئے نظام کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔

پنجاب حکومت نے حال ہی میں ایک آرڈیننس کے ذریعے مقامی حکومتوں کے نظام میں ترمیم کردی ہے۔ اس ترمیم کے مطابق اب مخصوص نشستوں یعنی اقیتی نمائندوں، خواتین کونسلرز، کسانوں اور نوجوانوں کو عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب نہیں کیا جائے گا بلکہ انہیں جنرل سیٹوں پر منتخب ہونے والے کونسلرز ہی منتخب کریں گے۔

اس حوالے سے لاہوراور سرگودھا سمیت کئی علاقوں سے اقیلتی مذاہب سے تعلق رکھنے والی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے احتجاجی مظاہروں کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ پیر کے روز سول سوسائٹی فورم برائے مقامی طرز حکمرانی اور ملک کی چند بڑی غیر سرکاری تنظیموں کے ایک اتحاد آواز فورم کی طرف سے لاہور میں مشترکہ پریس کانفرنس کا بھی اہتمام کیا گیا۔

اس موقعے پر فورم کے کنوینیئر سلمان عابد کا کہنا تھا کہ مقامی حکومتوں کے نظام میں کی جانے والی حالیہ ترامیم بد نیتی پر مبنی ہیں اور ان ترامیم کے ذریعے عورتوں، اقلیتوں، کسانوں اور نوجوانوں کو براہ راست ووٹ کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق یونین کونسل کے 25000 ووٹرز سے ان کے نمائندوں کے انتخاب کا حق لے کر آٹھ افراد کو دے دینا غیر آئینی ہے۔ اس سے مقتدر سیاسی جماعتوں کے لیے چور دروازے سے یہ نشستیں حاصل کرنا آسان ہو گیا ہے۔ ان کے بقول حیرت کی بات یہ ہے کہ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور سندھ میں مقامی حکومتوں کا جو نظام ہے اس میں ان مخصوص نشستوں پر انتخاب کے لیئے براہ راست ووٹنگ کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔

سلمان عابد کے بقول حکومت کا مقامی حکومتوں کے انتخابات مرحلہ وار کروانے کا فیصلہ بھی درست نہیں ہے کیونکہ حکومت پہلے اپنے مضبوط حمایت والے حلقوں میں اپنا اثر رسوخ استعمال کر کے مرضی کے نتائج حاصل کرے گی پھر ضمنی انتخابات کی طرح اسی ٹرینڈ کو فالو کیا جائے گا۔

اس موقعے پر عورت فاونڈیشن کی صوبائی سربراہ ممتاز مغل کا کہنا تھا کہ عام طور پر پاکستان میں کوئی ایک لاکھ کے قریب خواتین مقامی حکومتوں کے انتخابات میں حصہ لیتی رہی ہیں، صرف 2001 کے انتخابات میں جیتنے والی خواتین کی تعداد 36000 اور 2005 کے انتخابات میں جیتنے والی خواتین کی تعداد 26000 کے قریب تھی، اب براہ راست انتخاب کا حق چھین کر ان خواتین کواس سیاسی عمل میں حصہ لینے سے روک دیا گیا ہے

ممتاز مغل نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ خواتین کو براہ راست ووٹوں سے منتخب نہ ہونے دینا اس لیے بھی درست نہیں ہے کہ ان انتخابات کے لیے خواتین بڑی تعداد میں کاغذات نامزدگی جمع کروا چکی ہیں۔ ان کے بقول کسی خاتوں کے لیے عام ووٹرز سے ووٹ لینا آسان ہوتا ہے بجائے اس کے کہ وہ منتخب کونسلر سے ووٹ لے جو کہ پاکستانی حالات میں بہت "مہنگا" ہوتا ہے۔

ممتاز مغل بتاتی ہیں کہ سب سے زیادہ مشکل اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والوں لوگوں کو پیش آئے گی۔ جنرل سیٹوں پر منتخب ہونے والے مسلمان نمائندے اپنی پارٹی کے فیصلوں کے مطابق (اپنے ہی عزیزوں اور رشتہ داروں) کو منتخب کر لیں گے۔ یہ اقلیتی برادری کی درست نمائندگی نہیں ہو گی۔

یاد رہے پاکستان میں مقامی حکومتوں کے انتخابات 2009 میں ہونا تھے لیکن سیاسی حکومتوں کی طرف سے گریز کی وجہ سے یہ بار بار ملتوی ہوتے رہے، اس سے پہلے ان انتخابات کو غیر جماعتی بنیادوں پر منعقد کرانے اور اپنی مرضی کی حلقہ بندی کرنے کے حکومتی فیصلوں کو عدالت مسترد کر چکی ہے۔ اب یہ معاملہ بھی عدالت میں جانے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ عدالت نے 20 ستمبر کو پنجاب میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کروانے کا حکم دے رکھا ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق پنجاب میں سیلاب کی صورت حال کی وجہ سے سرکاری عملہ الیکشن ڈیوٹی کے لیے دستیاب نہیں ہوگا، اس لیئے حکومت اس کا مزید التوا چاہتی ہے۔

سول سوسائٹی نیٹ ورک پاکستان کے سربراہ عبداللہ ملک نے بتایا کہ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ جمہوری حکومتیں مقامی حکومتوں کے نظام سے گریز کرتی ہیں اور یہ نظام ہمیشہ غیر جمہوری دور میں ہی مضبوط ہوا ہے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours