اس سال مارچ میں جرمن کمپنی ’جرمن وِنگز‘ کا ایک مسافر بردار طیارہ تباہ ہو گیا تھا۔ اس واقعے میں مرنے والوں کے لواحقین کو زرِ تلافی کی ادائیگی کے موقع پر یہ سوال اٹھا ہے کہ انسانی جان کی قدر و قیمت کا تعین کیسے کیا جائے۔

بڑی حد تک یقین کے ساتھ یہ کہا جاتا ہے کہ اس سال چوبیس مارچ کو اسپین کے شہر بارسلونا سے ڈسلڈورف آنے والے اس طیارے کو اس کے معاون پائلٹ نے جان بوجھ کر فرانسیسی سلسلہٴ کوہ ایلپس سے ٹکرا کر تباہ کر دیا تھا۔ اس واقعے میں اس طیارے پر سوار تمام ایک سو پچاس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

اس المناک واقعے کے چار ماہ بعد مرنے والوں کے چند ایک لواحقین کا جرمن فضائی کمپنی لفتھانزا کے ساتھ زرِ تلافی کے موضوع پر تنازعہ شروع ہو گیا ہے۔ واضح رہے کہ ’جرمن وِنگز‘ لفتھانزا ہی کی ذیلی کمپنی ہے۔ ان لواحقین نے لفتھانزا کے سربراہ کارسٹن شپوہر کے نام ایک خط میں لکھا ہے کہ اُنہیں کی جانے والی زرِ تلافی کی پیشکش ’توہین آمیز‘ ہے۔ اس خط میں کہا گیا ہے کہ ’گو پیسہ مرنے والوں کو واپس نہیں لا سکتا لیکن روزمرہ زندگی کی کچھ ایسی فکریں ضرور کم کر سکتا ہے‘، جو لواحقین کے لیے اضافی طور پر پریشانی کا باعث بن رہی ہیں۔

اس معاملے نے چند ایک بنیادی سوالات کو جنم دیا ہے مثلاً اخلاقی اعتبار سے اس مشکل سوال کو کہ انسانی جان کی قدر و قیمت کیا ہے؟ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے ’میری قدر و قیمیت کیا ہے؟‘ نامی کتاب کے مصنف ژورن کلارے نے بتایا کہ مختلف جرمن محکموں نے اس حوالے سے مختلف ماڈل وضع کر رکھے ہیں، جن کی روشنی میں ایک دوسرے سے مختلف قدر و قمیت سامنے آتی ہے۔ اپنی تحقیق کے دوران کلارے کو پتہ چلا کہ مختلف ادارے اپنے اپنے ماڈلز کے لیے ایک عام زندگی کی اوسط قدر کو بنیاد بناتے ہیں۔ کلارے کے مطابق ’جرمنی میں آج کل یہ قدر دو ملین یورو ہے‘۔

تو ایسے میں ’جرمن ونگز‘ کے طیارے کے ہلاک شُدگان کے لواحقین کو کیا ملے گا؟ اس واقعے کے فوراً بعد لفتھانزا کی جانب سے لواحقین کو فی مسافر پچاس ہزار یورو کی ادائیگی کر دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ ہر قریبی عزیز کو دَس ہزار یورو اضافی طور پر ادا کیے جائیں گے۔ فی مسافر پچیس ہزار یورو موت کے اُس خوف کے لیے ادا کیے جائیں گے، جو مسافروں نے ممکنہ طر پر طیارے پر اپنے آخری لمحات میں محسوس کیا ہو گا۔ انفرادی طور پر بھی مختلف طرح کی ادائیگیاں کی جائیں گی۔

ایک اور سوال یہ کہ انفرادی ادائیگیوں کا حساب آخر کیسے لگایا جائے گا؟ اس کا انحصار مرنے والے کی عمر، اُس کی آمدنی اور اُس کے اُن لواحقین کی تعداد اور آمدنی پر ہو گا، جن کی پرورش اور دیکھ بھال اُس کے ذمے تھی۔ لفتھانزا نے اس سلسلے میں ایک مثال دی ہے کہ بالفرض اس حادثے میں مرنے والے شخص کی عمر پنتالیس برس تھی، جو اپنے پیچھے بیوی اور دو بچے چھوڑ گیا ہے اور وہ اپنی زندگی میں سالانہ ساٹھ ہزار یورو کماتا تھا تو پھر اُس کے کنبے کو چھ لاکھ یورو ادا کیے جائیں گے۔

جرمنی کے برعکس ریاست ہائے متحدہ امریکا میں ایسے معاملات میں عموماً کئی کئی ملین ڈالر ادا کیے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا کے برعکس جرمنی میں کسی شخص کو پہنچنے والے جذباتی نقصان یا اُس کے ہاں سوگ کی کیفیت کے لیے کوئی زرِ تلافی نہیں ہے۔ امریکا میں ایک کنبے کو، جس کا بچہ کسی فضائی حادثے میں ہلاک ہو جائے، 5.5 ملین سے لے کر 9 ملین یورو کے برابر رقم زرِ تلافی کے طور پر ادا کی جاتی ہے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours