سندربن کے جنگلات عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔ ان جنگلات میں پائے جانے والے بنگال ٹائیگرز کی تعداد کے بارے میں آخری مرتبہ اعداد وشمار سن دو ہزار چار میں اکٹھے کیے گئے تھے۔ اس وقت بتایا گیا تھا کہ ان جنگلات میں پائے جانے والے ان ٹائیگرز کی تعداد تقریباﹰ چار سوچالیس ہے۔ سندربن کے جنگلات کو ٹائیگرز کے لیے دنیا کی آخری بڑی قدرتی پناہ گاہ سمجھا جاتا ہے۔

اب ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹائیگرز کی تعداد سے متعلق ماضی میں لگائے گئے اندازے درست نہیں تھے۔ اب خفیہ کیمرے نصب کیے گئے ہیں اور جدید آلات کی مدد سے ان جانوروں کی زیادہ درست تعداد معلوم کی گئی ہے۔ بنگلہ دیش میں محکمہ جنگلی حیات سے تعلق رکھنے والے تیپن کماردے کا کہنا تھا کہ گزشتہ کئی برسوں سے ٹائیگرز کی تلاش خفیہ کیمروں کی مدد سے کی جا رہی ہے۔ یہ طویل سروے رواں برس اپریل میں اختتام پذیر ہوا ہے اور سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق ان جنگلات میں پائے جانے والے ٹائیگرز کی تعداد 83 سے 130 کے درمیان ہے اور اگر ان کی اوسط نکالی جائے تو یہ تعداد ایک سو چھ بنتی ہے۔

تیپن کماردے کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہنا تھا، ’’کم یا زیادہ بنگلہ دیشی حصے کے سندربن جنگلات میں پائے جانے والے ٹائیگرز کی تعداد ایک سو چھ بنتی ہے۔ یہ زیادہ درست معلومات ہیں۔‘‘ ماضی کے اعداد و شمار کے مطابق بھارتی حصے کے سندربن جنگلات میں پائے جانے والے ٹائیگرز کی تعداد تقریباﹰ چوہتر بنتی ہے۔ تقریباﹰ چالیس فیصد سندربن جنگلات بھارتی سرزمین پر پائے جاتے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ جنگلات دونوں ملکوں کے دس ہزار مربع کلومیٹر پر محیط ہیں۔

بنگلہ دیش میں جہانگیر نگر یونیورسٹی کے پروفیسر اور بنگال ٹائیگرز کے ماہر سمجھے جانے والے پروفیسر منیر الخان کا کہنا تھا کہ نئے سروے سے ان کے خدشات درست ثابت ہوئے ہیں، ’’لگتا یوں ہے کہ ہمارے خدشات سے بھی بڑھ کر ٹائیگرز کی آبادی میں کمی واقع ہوئی ہے۔‘‘ منیر الخان کا کہنا تھا کہ ان کی اپنی تحقیق کے مطابق ان کی تعداد دو سو سے زیادہ نہیں تھی۔

پروفیسر منیر الخان کا حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ان ٹائیگرز کی حفاظت کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ غیر قانونی شکار اور جنگل کے کنارے پر تیز رفتار ترقی کی وجہ سے ان کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے۔

ورلڈ وائلڈلائف فنڈ کے مطابق نہ صرف بنگلہ دیش بلکہ دنیا بھر میں ٹائیگرز کے ناپید ہونے کا خطرہ ہے۔ ان کی تعداد ایک لاکھ سے کم ہو کر دو ہزار سے تین ہزار دو سو کے درمیان آ چکی ہے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours