ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ افغان حکومت اور تحریک طالبان افغانستان کے درمیان براہ راست مذاکرات کا آئندہ دور پاکستان یا پھر چین میں ہوگا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مذاکرات کہیں بھی ہوں، اصل معاملہ ان کے نتائج کا ہے۔

پاکستان کی بری فوج کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ مذاکرات تیس اور اکتیس جولائی کو پاکستان میں منعقد ہوں گے۔ تاہم اس حوالے سے ابھی تک سرکاری طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ تاہم دوسری جانب اسلام آباد میں افغان سفارت خانے کے ذرائع کا افغان امن کونسل کے ارکان کے حوالے سے کہنا ہے کہ یہ مجوزہ مذاکرات چین کے شہر ارمچی میں ہوں گے۔

تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مذاکرات کہیں بھی منعقد ہوں اصل معاملہ ان کے نتائج کا ہے۔ سفارتی امور کے تجزیہ کار بریگیڈئیر (ر) اسد منیر نے کہا کہ اس سے بڑی اہم اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ اس ماہ کے آغاز میں ہونے والی بات چیت کا دوسرا دور بھی رواں ماہ کے اختتام پر منعقد کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہر کوئی مذاکرات کے اس دوسرے دور سے پہلے کی نسبت زیادہ پرامید ہے۔ پہلے مذاکرات میں جن لوگوں نے طالبان کی نمائندگی کی، وہ سابق طالبان حکومت کے اہم عہدیدار تھے اور ان میں سے ایک جلال الدین حقانی کے بھائی بھی تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کہ افغان طالبان کی قیادت کے اعتماد کے لوگ ہیں اور مذاکرات کا تسلسل بھی اس بات کی علامت ہے کہ طالبان قیادت نے لچک دکھائی ہے اور وہ بات چیت کے لئے تیار ہیں حالانکہ شروع میں وہ کہ رہے تھے کہ نیٹو اور امریکی فوجیوں کی موجودگی میں مذاکرات نہیں ہو سکتے۔"

مذاکرات کے دوسرے دور میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان جنگ بندی کا معاملہ ایجنڈے پر ہونے سے متعلق خبروں کے بارے میں بریگیڈئیر اسد منیر کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ ایجنڈے پر تو ضرور ہو سکتا ہے لیکن اس کی کامیابی کے زیادہ امکان نظر نہیں آتے۔

اس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "فی الحال یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ افغان حکومت 2004 ء کے افغان آئین میں طالبان کی مرضی کے مطابق چند تبدیلیاں کرنے پر راضی ہوجائے یعنی اسلامی شقوں کے حوالے سے لیکن مذاکرات کے دوسرے دور میں پورے ملک میں جنگ بندی کا معاہدہ ہو جانا میرے خیال سے اس کے زیادہ چانس نہیں۔"

خیال رہے کہ اس ماہ کی چھ اور سات تاریخ کو پاکستان، امریکا اور چین کے نمائندوں کی موجودگی میں افغان حکومت اور تحریک طالبان افغانستان کے نمائندوں کے درمیان اسلام آباد سے پینتالیس کلومیٹر کی مسافت پر واقع سیاحتی مقام مری میں امن مذاکرات کا پہلا دور ہوا تھا۔

اجلاس کے اختتام پر پاکستانی دفترخارجہ نے کہا تھا کہ مذاکرات کا اگلا دور فریقین کے درمیان باہمی اتفاق رائے سے رمضان کے بعد منعقد ہو گا۔ ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ کہ شرکاء نے افغانستان میں قیام امن اور مفاہمت کے طریقہ کار اور زرائع پر تبادلہ خیال کیا۔

بیان کےمطابق "شرکاء نے امن اور مفاہمت کےعمل کے لئے ساز گار ماحول پیدا کرنے کے سلسلے میں بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔‘‘پاکستانی دفتر خارجہ کے ذرائع کے مطابق ان مذاکرات میں افغان وفد کی سربراہی نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی نے کی تھی جبکہ دیگر اہم رہنماؤں میں صدر اشرف غنی کے مشیر حاجی دین محمد اور افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے نمائندے محمد نطیقی شامل تھے۔

دوسری جانب افغان طالبان کی سربراہی طالبان دور کے اٹارنی جنرل ملا عباس نے کی تھی جو افغان طالبان کے سربراہ ملا عمر اور طالبان شوریٰ کے اراکین کے کافی قریب خیال کیے جاتے ہیں۔

افغان امور کے ماہر طاہر خان کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے دوسرے دور کے بارے میں اندازہ اس کے شرکاء کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’سنا ہے کہ اس مرتبہ دونوں جانب سے مزید اہم عہدیدار اور نمائندے بھی شریک ہو رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ بات کچھ اور آگے بڑھی ہے۔ کیونکہ طالبان کے دوحہ میں قائم دفتر کے کچھ لوگوں کے بارے میں سنا ہے کہ وہ بھی مذاکرات کے دوسرے دور میں شریک ہو سکتے ہیں۔"

اس سے قبل افغان حکومت اور طالبان کے درمیان دو ہزار تیرہ میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے براہ راست مذاکرات وہاں قائم طالبان کے دفتر پر ان کا جھنڈا لہرانے اور دفتر کے باہر تختی آویزاں کرنے جیسے تنازعات کے بعد ختم ہو گئے تھے۔ تاہم اس کے بعد چین کے شہر ارمچی میں فریقین کے درمیان رسمی مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لئے بات چیت کا ایک دور منعقد کیا گیا تھا۔ پاکستانی بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بھی اس سال فروری میں دورہ کابل کے دوران افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی یقین دہانی کرائی تھی۔

طاہر خان کا بھی ماننا ہے کہ مذاکرات کے مقام سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہوں نے کہا کہ "خواہ ارمچی ہو، مری ہو یا کابل، اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ بات چیت میں پاکستان، امریکا اور چین کے نمائندے بھی موجود ہیں اور یہاں کسی طرح سے بھی ایسا نہیں ہے کہ مذاکرات کا مقام تبدیل کرنے سے ان کا ایجنڈا بھی بدل جائے گا۔"

انہوں نے کہا کہ مذاکرات کا مقصد ایک اور بہت واضح ہے اور وہ افغانستان میں دیر پا قیام امن کے لئے راہ ہموار کرنا ہے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours