غصے سے ڈکارتے اور اپنے حریف بیل پر خونخوار ٹکٹکی باندھے ہوئے دیو قامت جانور اپنے سینگوں سے ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش میں ہیں۔ جاپانی بُل فائٹنگ میں کسی انسان کی ضرورت نہیں ہوتی۔

بیلوں کی زبانیں باہر ہیں اور ان کے منہ سے جھاگ نکل رہا ہے۔ ان جانوروں کے مالک اپنی جان خطرے میں ڈال کر اپنے اپنے بیلوں کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر ان کی حوصلہ افزائی میں مصروف ہیں۔ ایک ایک ٹن وزنی ان بیلوں کی ایک غلطی ہی ان مالکان کے لیے لقمہ اجل ثابت ہو سکتی ہے۔

اسپین میں بیلوں کی لڑائی (بُل فائٹنگ) پر جانوروں کے حقوق کی تنظیموں کی طرف سے شدید تنقید کی جاتی ہے۔ اسی تناظر میں اسپین کے علاقے کاتالونیا میں اس کھیل پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ تاہم جاپان کے شمالی جزیرے اوکیناوا میں بُل فائٹنگ کا کھیل ایک بڑے ہجوم کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے۔ وہاں اس کھیل کو دیکھنے کے لیے چھوٹے چھوٹے بچے بھی جاتے ہیں، جو لوہے کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھ کر چند فٹ کے فاصلے سے بیلوں کو لڑتے دیکھتے ہیں۔

اسپین میں بُل فائٹنگ میں کھیل کا خاتمہ بُل فائٹر کی طرف سے بیل کی ہلاکت پر ہوتا ہے۔ تاہم جاپان میں کھیلے جانے والے اس کھیل میں انسان نہیں بلکہ بیل ہی آپس میں لڑتے ہیں۔ وہاں اگر کوئی ایک بیل ڈر گیا یا پیچھے ہٹ گیا تو کھیل وہیں ختم ہو جاتا ہے۔ گویا جاپان میں بُل فائٹنگ کوئی خونریز کھیل نہیں ہے۔

جاپان میں اس کھیل کے ایک مورخ کونی ہارو میاگی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’اوکیناوا میں بل فائٹنگ خونریز کھیل تصور نہیں کیا جاتا۔ یہ یہاں کا ایک روایتی کھیل ہے۔ اس کھیل کی ایک طویل تاریخ ہے۔ کسان اپنے اپنے بیل ایک میدان میں لاتے ہیں اور لطف اندوز ہونے کی خاطر انہیں ایک دوسرے سے لڑاتے ہیں۔‘‘ میاگی بتاتے ہیں کہ جاپان میں لڑنے والے بیلوں پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور دیگر بیلوں کے مقابلے میں انہیں زیادہ خوارک کھلائی جاتی ہے۔

’بیلوں کی دماغی صحت کا خیال‘

جاپان میں اس کھیل کی تاریخ کم از کم آٹھ سو سال پرانی ہے۔ اسی طرح کے کھیل جنوبی کوریا، ترکی، خلیج فارس، جنوبی امریکا اور بلقان کی ریاستوں میں بھی مقبول ہیں۔ جاپان میں اس کھیل کا مقامی نام "ushi-orase" ہے، جس کا لغوی مطلب ہی بیلوں کی لڑائی ہے۔ اس کھیل میں بیلوں کو تیس منٹ کا وقت دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے حریف جانوروں کو ڈرا کر جنگلے کے ساتھ لگا دیں یا انہیں فرار ہونے پر مجبور کر دیں۔

جاپان میں لڑنے والے بیلوں کے مالکان کو ’سیکو‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ان کی تربیت کرتے ہیں اور ان کا خیال رکھتے ہیں۔ کچھ بیلوں کے مالک یوجی تامان آہا کہتے ہیں، ’’یہ بیل ہمارے کبنوں کا حصہ ہیں۔ میں انہیں روزانہ اپنے ہاتھ سے گھاس کھلاتا ہوں کیونکہ اس سے محبت کا رشتہ پیدا ہوتا ہے۔ میری اولاد نہیں، اس لیے میں اور میری اہلیہ ان بیلوں کو اپنے بچوں کی طرح سمجھتے ہیں۔‘‘ تامان آہا کے بقول ان کے بیل دوستانہ رویوں کے حامل ہیں لیکن جب وہ لڑتے ہیں تو اپنی بھرپور توانائی کا استعمال کرتے ہیں۔

اوکیناوا کے ایک اور رہائشی ماری آکا ایہا کے مطابق کئی بیل شدید لڑائی کے بعد نفسیاتی طور پر سنبھل نہیں پاتے۔ اپنے بیل کی پیٹھ سہلاتے ہوئے ماری آکا نے اے ایف پی کو بتایا، ’’انہیں بھی نفسیاتی طور پر دھچکا پہنچ سکتا ہے۔ آپ کو ان کی دماغی صحت کا خیال بھی رکھنا ہوتا ہے۔ میں اپنے فارم ہاؤس پر روزانہ صبح پانچ بجے پہنچ جاتا ہوں۔ میں خود گھاس کاٹ کر اپنے بیل کو کھلاتا ہوں اور اس کی صفائی کا خاص خیال رکھتا ہوں۔ میں اپنا نصف دن اسی کے ساتھ گزارتا ہوں۔ میری اہلیہ کا خیال ہے کہ میں پاگل ہوں۔ شکر ہے کہ وہ مجھے چھوڑ کر چلی نہیں گئی۔‘‘

ماری آکا ایہا کے مطابق لڑائی سے قبل وہ اپنے بیل کو اوکیناوا کی چائے پلاتے ہیں۔ ان کے بقول چائے میں کیفین ہوتی ہے، جو متحرک کرتی ہے، ’’یہاں بُل فائٹنگ میں ڈوپنگ کے قوانین نہیں ہیں، اس لیے سب کچھ جائز ہے۔ تمام لوگ اپنے اپنے بیلوں کو جتوانے کے لیے خفیہ طریقے استعمال کرتے ہیں۔‘‘
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours