شام میں فعال کردوں کی مرکزی ملیشیا نے کہا ہے کہ ترکی نے سرحد پار شیلنگ کرتے ہوئے اس کے فائٹرز کو نشانہ بنایا ہے۔ تاہم انقرہ حکومت نے اس الزام کی تردید کر دی ہے۔

خبر رساں ادارے اے پی نے شامی کرد ملیشیا ’کردش پیپلز پروٹیکشن یونٹس‘ کے حوالے سے بتایا ہے کہ ترک فوج کے ٹینکوں کی طرف سے اتوار کی رات سرحد پار شلینگ میں اس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ ملیشیا شام میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف سرگرم عمل ہے جبکہ اسے امریکی اتحادی فضائیہ کی معاونت بھی حاصل ہے۔

بتایا گیا ہے کہ ترک فوج کی طرف سے جرابلس اور تل فندائر نامی علاقوں میں کی گئی شیلنگ میں کرد فائٹرز کی ایک گاڑی کو نقصان پہنچا ہے۔ یہ علاقہ کوبانی کے مشرق میں واقع ہے، جہاں ان فائٹرز نے حال ہی میں اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں کو پسپا کیا تھا۔

ترکی نے جمعے کو شام سے شروع کردہ اپنی کارروائیوں میں شام میں فعال اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کے علاوہ شمالی عراق میں کرد باغیوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ یوں شام کی پیچیدہ خانہ جنگی میں انقرہ حکومت کا کردار بھی بڑھتا جا رہا ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ شام میں جہادیوں کے خلاف جاری لڑائی میں شامی کرد فائٹرز انتہائی اہم کردار ادا کر رہے ہیں لیکن ترکی کو خطرہ ہے کہ یہ کرد طاقت جمع کرتے ہوئے بعدازاں ترکی میں بھی ایک آزاد ریاست کی مسلح جدوجہد شروع کر سکتے ہیں۔

ترک حکام نے کہا ہے کہ ترک فوج شام میں صرف جہادیوں اور شمالی عراق میں کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے خلاف عسکری کارروائی کر رہی ہے۔ ایک حکومتی بیان کے مطابق باغی گروہ پی کے کے اور جہادیوں کے خلاف کارروائی دراصل ترکی کو لاحق سکیورٹی خطرات کے پیش نظر کی جا رہی ہے۔ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انقرہ حکومت ایسے الزامات کی تفتیش کر رہی ہے کہ شام میں کی جانے والی کارروائی میں کردش پیپلز پروٹیکشن یونٹس کے ارکان بھی متاثر ہوئے ہیں۔

تاہم کرد ملیشیا نے انقرہ حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر اس کے مسلح ارکان کے خلاف حملے روک دے۔ اس ملیشیا کے مطابق ترک افواج نے جہادیوں کو نشانہ بنانے کے بجائے ان کے ارکان پر حملہ کیا ہے۔ انہی فائٹرز نے پیر کے دن شمالی شام کے ایک اہم علاقے سارین میں اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کو پسپا بھی کر دیا ہے۔ غیر سرکاری ادارے سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے سربراہ رامی عبدالرحمان نے بتایا ہے کہ کئی ماہ کی لڑائی کے بعد سارین کا کنٹرول حاصل کیا گیا ہے۔ ان کے بقول حکمت عملی کے حوالے سے یہ علاقہ انتہائی اہم ہے کیونکہ یہی وہ مقام ہے، جو جہادیوں کے لیے ایک سپلائی لائن کا کام دیتا تھا۔ یہ علاقہ کوبانی کے قریب ہی واقع ہےدریں اثناء ترک وزیر اعظم احمد داؤد آؤلو نے پیر کے دن ہی کہا ہے کہ شام میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف فضائی کارروائی جاری رکھی جائے گی لیکن وہاں زمینی فوج روانہ نہیں کی جائے گی۔ شام اور شمالی عراق میں کارروائی کے تناظر میں ترک حکومت نے نیٹو کا ایک ہنگامی اجلاس بھی طلب کر لیا ہے۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ انقرہ کی درخواست پر منگل کے دن ایک خصوصی اجلاس منعقد کیا جائے گا۔

ترک وزارت خارجہ کے مطابق اس اجلاس میں نیٹو ممالک کو جہادیوں اور کرد باغیوں کے خلاف جاری عسکری کارروائی کے بارے میں تفصیلات بتائی جائیں گی۔ یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ فیڈریکا موگیرینی نے جہادیوں کے خلاف کارروائی میں ترکی کے ساتھ تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours