آج کل جرمن شہر میونخ میں بیکری مصنوعات کا سب سے بڑا عالمی تجارتی میلہ منعقد ہو رہا ہے۔ اس بار اس میں ایسے تھری ڈی یا سہ جہتی پرنٹر بھی مرکزِ نگاہ ہیں، جن کے ذریعے کھانے کی مختلف رنگا رنگ چیزیں ’پرنٹ‘ کی جا سکتی ہیں۔

تھری ڈی پرنٹر سے عینک کا فریم بنانا یا چائے کافی کی پیالی بنانا تو اب کوئی نئی بات نہیں رہ گئی۔ نیا یہ ہے کہ اب اس طرح کے پرنٹر کے اندر سے آلو کا ملیدہ یا پھر بسکٹ بھی برآمد ہو سکتے ہیں

آلو کے ملیدے سے بنا ہوا کوئی آکٹوپس یعنی ہشت پا، کلیجی کے ساسیج سے تیار کیا ہوا کوئی پھول یا پھر چاکلیٹ سے بنی کوئی کشتی، میونخ میں جاری میلے iba کو دیکھنے کے لیے جانے والے شائقین اس طرح کی ’پرنٹ‘ کی ہوئی مصنوعات کو چکھ بھی سکتے ہیں۔

Print2Taste، یہ ہے نام میونخ کے قریب فرائزنگ میں قائم ایک نئے ادارے کا، جو کھانے ’پرنٹ‘ کرنے والے پرنٹر تیار کر رہا ہے اور اُنہیں سرِدست اس تجارتی میلے میں لوگوں کو دکھا رہا ہے۔ آئندہ سال یعنی 2016ء سے اس طرح کے پرنٹر بازار میں آ جائیں گے۔

اس ادارے میں ایک دَس رُکنی ٹیم اس طرں کے پرنٹرز تیار کرنے میں مصروف ہے۔ میلانی زینگر اس ٹیم کی ایک اکتیس سالہ رکن ہیں، جنہوں نے خوراک سے متعلقہ امور کی ماہر بھی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جیسے ایک حلوائی اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھوٹی سی پوٹلی کو دبا دبا کر جلیبیاں بناتا ہے، اسی طرح ایک پرنٹر سے بھی خام مادہ برآمد ہوتا ہے لیکن ایک حلوائی کے مقابلے میں ایک تھری ڈی پرنٹر سے یہ مادہ کہیں زیادہ باریکی اور نفاست کے ساتھ نکلتا ہے۔

پرنٹر سے نکلنے والے خام مادے کی مدد سے مختلف طرح کی اشکال بنائی جا سکتی ہیں، جنہیں بعد میں اوون میں رکھ کر پکایا اور پھر مزے سے کھایا جا سکتا ہے۔

ماہرین اس یقین کا اظہار کر رہے ہیں کہ اگرچہ ابھی پرنٹرز سے نکلی ہوئی خوراک ایک نئی اور انوکھی چیز معلوم ہوتی ہے لیکن آئندہ چند برسوں میں یہ بہت عام ہو جائے گی۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours