ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے کہا ہے کہ امریکہ اور کیوبا نے پچاس سال سے زائد عرصہ میں پہلی مرتبہ ایک دوسرے کے دارالحکومتوں میں سفارت خانے کھولنے کے لیے ایک معاہدے پر اتفاق کیا ہے۔


وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ صدر اوباما بدھ کو وائٹ ہاؤس کے روز گارڈن میں کیوبا سے متعلق ایک بیان دیں گے، جبکہ وزیرِ خارجہ جان کیری ویانا میں نامہ نگاروں سے بات کریں گے جہاں وہ ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات میں مصروف ہیں۔


کیوبا کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ ہوانا میں ’یو ایس انٹرسٹس سیکشن‘ کے سربراہ جیفری ڈی لورینٹیس بدھ کو سفارت خانہ دوبارہ کھولنے سے متعلق صدر اوباما کی جانب سے ایک پیغام پڑھ کر سنائیں گے۔


خبررساں ادارے ’روئٹرز‘ کے مطابق، جان کیری جولائی میں امریکی سفارت خانہ دوبارہ کھولنے کی تقریب میں پرچم کشائی کے لیے ہوانا جائیں گے۔ عہدیدار کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاؤس اس کی تاریخ کا اعلان کرے گا۔


اوباما نے گزشتہ سال دسمبر میں ایک تاریخی اعلان کیا تھا کہ وہ کیوبا کے خلاف طویل عرصہ سے عائد تجارتی پابندیاں ختم کر کے سفارتی تعلقات دوبارہ بحال کرنا چاہتے ہیں۔


اس کے بعد سے دونوں جانب سے وفود واشنگٹن اور ہوانا میں مذاکرات کرتے رہے ہیں۔


سفارتی تعلقات میں جمود ٹوٹنے کا ایک اہم اشارہ امریکہ کی جانب سے کیوبا کا نام دہشت گردی کی معاون ریاستوں کی فہرست سے خارج کرنا تھا۔ اوباما نے 14 اپریل کو اعلان کیا تھا کہ وہ کیوبا کو اس فہرست سے خارج کر دیں گے، جس کے بعد 45 روزہ نظر ثانی کی مدت شروع ہو گئی تھی جس کی معیاد 29 مئی کو ختم ہوئی۔


اوباما نے کہا کہ کیوبا کو تجارتی اور سفری پابندیوں سے تنہا کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوا اور نہ اس سے وہاں جمہوریت اور ترقی کو فروغ ملا۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ وقت نئی حکمت عملی اپنانے کا ہے۔


مگر کیوبا کے ساتھ سفارتی تعلقات کے مخالفین کہتے ہیں کہ یہ کاسترو حکومت کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔ مخالفین میں کیوبا سے آنے والے کئی تارکین وطن بھی شامل ہیں۔


مگر دونوں ممالک اب ہوانا اور واشنگٹن میں قائم اپنے انٹرسٹس سیکشنز کو مکمل سفارت خانوں میں تبدیل کر کے اور بعد میں سفیر تعینات کر سکیں گے۔ اس سے قبل انٹرسٹس سیکشن ہی ایک دوسرے کے ملکوں میں مفادات کی نگرانی کرتے تھے۔ کوئی سفارت خانہ کھولنے سے قبل محکمہ خارجہ کی طرف سے کانگریس کو 15 دن کا نوٹس دینا لازمی ہے۔


سفارت خانے کھلنے کے بعد بھی امریکی اور کیوبا کی حکومتوں کو کئی حساس معاملات کا سامنا رہے گا، جن میں امریکہ کی جانب سے کیوبا کے عوام کے لیے انسانی حقوق کا مطالبہ شامل ہے۔


ایک زمانے میں کیوبا میں امریکی سیاحت اور سرمایہ کاری کی ریل پیل تھی اور وہاں کے ہوٹل، جوا خانے اور ساحلی تفریح گاہیں طویل عرصہ تک متمول افراد کی دلچسپی کا مرکز رہی ہیں۔


1959 میں فیدال کاسترو کی جانب سے صدر فولگینسیو باتیستا کو معزول کرکے کمیونسٹ حکومت کے قیام اور امریکی اثاثوں پر قبضے کے بعد امریکہ کے کیوبا سے تعلقات شدید متاثر ہوئے۔ امریکہ نے دو سال بعد کیوبا سے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے اور 1962 میں کلی اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔


کیوبا کا اقتصادی اور فوجی امداد کے لیے سویت یونین پر بھاری انحصار رہا ہے۔


ترکی میں امریکی میزائلوں کی تنصیب کے جواب میں ماسکو نے کیوبا میں نیوکلیئر میزائلوں کی لانچ سائٹیں تعمیر کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس مسئلے پر اکتوبر 1962 میں دونوں سپر پاور ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے تنازع سے دنیا جوہری فنا کے قریب پہنچ گئی تھی، جس کے بعد واشنگٹن اور ماسکو نے پیچھے ہٹنے پر اتفاق کیا تھا۔ دنیا اس تنازع کو کیوبن میزائل بحران کے نام سے یاد کرتی ہے۔


 میں سویت یونین کے خاتمے کے بعد کیوبا کو اقتصادی مشکلات کا سامنا رہا ہے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours