امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ اپنے دورِ صدارت میں ان کے لیے سب سے ’مایوس کن‘ چیز ہتھیاروں کے استعمال پر کنٹرول کے حوالے سے قوانین منظور نہ کروا پانا رہی ہے۔

کینیا کے دورے پر جانے سے پہلے وائٹ ہاؤس میں بی بی سی سے خصوصی بات چیت میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ عوام کی ہلاکتوں کے بار بار ہونے والے واقعات کے باوجود اس مسئلے پر کوئی پیش رفت نہ ہونا ان کے لیے ’پریشان کن‘ رہا ہے۔

واضح رہے کہ امریکی صدر جمعے سے افریقہ کا ایک مختصر دورہ کر رہے ہیں۔

امریکی صدر نے اپنی صدارت کے بقیہ مہینوں میں بھی گن کنٹرول سے متعلق قوانین میں سختی کرنے کا اعادہ کیا تاہم شمالی امریکہ کے لیے بی بی سی کے مدیر جون سوپیل کا کہنا ہے کہ صدر اوباما نے انٹرویو کے دوران اس حوالے سے زیادہ پراعتماد دکھائی نہیں دیے۔

صدر اوباما نے کہا: ’اگر آپ نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد ہلاک ہونے والے امریکیوں کی تعداد دیکھیں، یہ ایک سو سے بھی کم ہے۔ اگر آپ اسلحے کے ذریعے ہونے والے تشدد میں مرنے والوں کی تعداد دیکھیں تو یہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے لیے اس مسئلے کا حل تلاش نہ کرنا تشویش ناک ہے۔‘

رواں برس جون میں جنوبی کیرولائنا میں نو افریقی نژاد امریکیوں کی چرچ میں ہلاکت کے بعد انھوں نے تسلیم کیا تھا کہ ’اس شہر میں سیاست‘ کا مطلب تھا کہ یہاں بہت کم مواقع موجود ہیں۔

نسلی تعلقات کے بارے میں انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’پولیس اور بڑی تعداد میں حراستوں سے متعلق حالیہ تشویش جائز اور توجہ طلب ہے۔‘

انھوں نے اصرار کیا کہ ان کے دور میں پلنے بڑھنے والے بچوں کا ’ملک میں نسلی تعلقات کے بارے میں مختلف نقطۂ نظر ہوگا اور ایسا ممکن ہے۔‘

انھوں نے کہا: ‘تناؤ بڑھنے کی صورتحال ہوگی لیکن اگر آپ میری بیٹیوں کی پود کو دیکھیں، تو ان کا رویہ میری پود کے لوگوں سے بھی بالکل مختلف ہے۔‘

صدر اوباما نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ امریکی کانگریس میں ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کی منظوری دے دی جائے گی۔

امریکی صدر براک اوباما نے یہ بھی کہا کہ برطانیہ عالمی سطح پر اپنا اثر رسوخ قائم رکھنے کے لیے یورپی یونین میں ضرور شامل رہے۔

انھوں نے کہا کہ برطانیہ کی یورپی یونین کی رکنیت ’بحراقیانوس کے پار اتحاد کی مضبوطی کے لیے بہت زیادہ اعتماد فراہم کرتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین نے ’دنیا کو محفوظ تر اور زیادہ خوشحال بنایا ہے۔‘

صدر اوباما کا کہنا تھا کہ برطانیہ کی ’دنیا کا محفوظ بنانے کے لیے اس کے ذاتی مفادات سے مبرا‘ ہونے کی خواہش کی وجہ سے وہ امریکہ کا ’بہترین پارٹنر‘ ہے۔

انھوں نے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو بھی ایک ’نمایاں پارٹنر‘ قرار دیا اور ان کی حکومت کو دفاع پر جی ڈی پی کا دو فیصد حصہ مختص کرنے کا نیٹو کا ہدف حاصل کرنے پر مبارک باد پیش کی۔

صدر اوباما نے وزیراعظم کیمرون پر اس ہدف کے حصول کے لیے دباؤ ڈالنے کی تردید کی اور کہا دونوں سربراہان کے درمیان ’ایماندارانہ گفتگو‘ ہوئی تھی۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours