ایک بین الاقوامی تھنک ٹینک کے مطابق پاکستان کی مقابلتا کم عمر جمہوریت کو دہشت گردی کے خلاف پاکستان ہی کی اس موجودہ حکمت عملی سے خطرہ لاحق ہے، جو ’ضرورت سے زیادہ فوجی رنگ‘ اختیار کر چکی ہے۔

اسلام آباد سے جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی بدھ بائیس جولائی کی شام ملنے والی رپورٹوں کے مطابق یہ بات بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل کرائسز گروپ کی آج ہی جاری کردہ ایک تازہ رپورٹ میں کہی گئی ہے۔

ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ اس گروپ کی طرف سے یہ تنبیہ اس نئے فوجی آپریشن کے آغاز کے قریب چھ ماہ بعد کی گئی ہے، جس کے تحت پاکستانی سکیورٹی دستوں کی طرف سے ملک میں شدت پسند مسلمانوں کے مسلح گروپوں کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ یہ آپریشن گزشتہ برس دسمبر میں شمال مغربی شہر پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے اس بڑے حملے کے بعد شروع کیا گیا تھا، جس میں کئی دیگر افراد کے علاوہ 136 طلبہ بھی ہلاک ہو گئے تھے۔

اس پس منظر میں انٹرنیشنل کرائسز گروپ نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے، ’’بڑے ذرائع اور مہلک طاقت پر انحصار کے ساتھ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے سے یہ خطرہ پیدا ہو جاتا ہے کہ بہتری کی بجائے خرابی زیادہ ہو گی اور آئین کی بالا دستی، جمہوری حکومتی طریقہ کار اور قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچے گا۔‘‘

پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف اس نئی ریاستی حکمت عملی کی پشاور اسکول حملے کے بعد ملکی پارلیمان نے باقاعدہ منظوری دی تھی۔ اس حکمت عملی کے تحت جو اقدامات کیے گئے ہیں، ان میں مثال کے طور پر یہ بھی شامل ہے کہ سزا یافتہ مجرموں کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد، جو قریب چھ سال سے معطل تھا، دوبارہ شروع کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ مشتبہ دہشت گردوں کے خلاف مقدمات کی تیز رفتار سماعت کے لیے فوجی عدالتیں بھی قائم کی جا چکی ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق اس منصوبے کے تحت پارلیمان اور عدلیہ سمیت کئی ریاستی اداروں کے مقابلے میں فوج کو بہت زیادہ اختیارات دے دیے گئے ہیں۔ بین الاقوامی کرائسز گروپ کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’’2008ء میں جمہوریت کی بحالی کے بعد سے فوجی طاقت کا سویلین طاقت پر مسلسل برتری کا حامل رہنا ملک میں بامقصد اور دیرپا اصلاحات کے عمل کے لیے بڑا چیلنج بنا رہے گا۔‘‘

ڈی پی اے نے مزید لکھا ہے کہ پاکستان میں سویلین قیادت اور فوج کے مابین تعلقات میں خلیج اِس ملک کا ایک بڑا سیاسی مسئلہ رہی ہے، خاص طور پر اس تناظر میں کہ پاکستانی فوج کے جرنیل ہی وہ شخصیات رہے ہیں، جنہوں نے آزادی کے بعد سے آج تک اس ملک میں قریب نصف مدت تک حکمرانی کی ہے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours