برطانوی مفکر رچرڈ ڈاکنز نے حال ہی میں ایک نئی بحث کا آغاز کیا جب انہوں نے اپنی ٹوئیٹ میں کہا 'اسلام کو خواتین کے حقوق نسواں انقلاب کی ضرورت ہے، یہ مشکل ہوگا۔ ہم مدد کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟'

رچرڈ ڈاکنز اس سے قبل بھی مذاہب پر تنقید کر چکے ہیں مگر متعدد افراد نے اس بات کی نشاندہی کی کہ وہ زیادہ تر اسلام کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان کے ٹوئٹر پر کیے گئے سوال کے بعد لوگوں کا سخت ردعمل سامنے آیا، کچھ کا کہنا تھا کہ اسلام خواتین کے حقوق کا مکمل خیال رکھتا ہے جبکہ کچھ نے ڈاکنز کے مذہب پر ایک بار پھر تنقید کرنے پر غصے کا اظہار کیا۔

فاطمہ بھٹو نے ڈاکنز کے بیان میں اس بات کی نشاندہی کی جس پر متعدد افراد مشتعل ہورہے تھے: حقیقتاً وہ ان افراد میں سے ایک ہیں جو خواتین کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کیلئے اپنی زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ کیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ مردانہ برتری کی حامل سوچ کی عکاسی کر رہے ہیں اور اس تناظر میں وہ غلط ہیں۔ یقیناً یہ سوچ حقوق نسواں کی علمبردار تو نہیں ہو سکتی۔

فاطمہ بھٹو نے اس بات کو واضح کیا کہ ہمیں ڈاکنز کی رائے کی ضرورت نہیں۔اور مسلم خواتین اس بات کا خود فیصلہ کر سکتی ہیں کہ ان کے لیے کون سا کام صحیح ہے اور کون سا نہیں۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours