بھارت کی ایک اعلیٰ عدالت نے ایک چَودہ سالہ حاملہ لڑکی کو اسقاطِ حمل کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ اس لڑکی کو مبینہ طور پر مغربی ریاست گجرات میں ایک ڈاکٹر نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا تھا۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی نے ریاست گجرات کے شہر احمد آباد سے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ بات اس متاثرہ لڑکی کے وکیل کی جانب سے جمعہ چوبیس جولائی کو بتائی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ریاست گجرات کی ہائی کورٹ نے جمعرات کو اِس لڑکی کے والد کی جانب سے دی گئی اسقاطِ حمل کی درخواست کو یہ کہتے ہوئے رَد کر دیا کہ اسقاطِ حمل سے متعلق بھارتی قوانین حمل ٹھہرنے کے بیس ہفتے یا پانچ مہینے گزر جانے کے بعد حمل گرانے کی اجازت نہیں دیتے۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ لڑکی، جس کا نام قانونی وجوہات کی بناء پر منظرِ عام پر نہیں لایا گیا، پانچ مہینے سے زیادہ عرصے سے حاملہ ہے۔ اس نوعمر لڑکی کے وکیل پردیپ بھاٹے نے اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے کہا:’’اس متاثرہ لڑکی کا باپ ایک مزدور ہے اور اُس کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ (اپنی بیٹی کے ہاں) پیدا ہونے والے بچے کی پرورش کر سکے۔ ابھی اس کے والدین نے یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ آیا وہ کسی بڑی عدالت سے رجوع کریں گے۔‘‘

گجرات ہائی کورٹ کی خاتون جج ابھیلاشا کماری نے کہا کہ یہ ایک ’مشکل‘ فیصلہ تھا لیکن یہ کہ ’جن حالات میں یہ حمل ٹھہرا، وہ چاہے جو بھی رہے ہوں اور نوعمر ماں کیسی بھی صدماتی کیفیت کا شکار کیوں نہ ہو، حقیقت یہ ہے کہ بچے کو بھی اُس کے جنم کے لیے قصور وار قرار نہیں دیا جا سکتا‘۔

جج ابھیلاشا کماری نے کہا:’’بچے نے تو نہیں کہا تھا کہ مجھے پیدا کرو ... بچہ معصوم ہے، متاثرہ خاتون یعنی اپنی ماں کی طرح۔‘‘

اس لڑکی کے والد نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ اُس کی بیٹی ایک ڈاکٹر کے پاس جانے کے بعد حاملہ ہوئی، جس نے مبینہ طور پر فروری میں لڑکی کو خواب آور ادویات دینے کے بعد اُس کی آبرو ریزی کی تھی۔پولیس نے یہ بات منظرِ عام پر آنے کے فوراً بعد ڈاکٹر کو گرفتار کر لیا تھا اور وہ آج کل پولیس کی تحویل میں ہے۔

اس سال اپریل میں اسی عدالت نے ایک چوبیس سالہ خاتون کو بھی اسقاطِ حمل کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ خاتون اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنی تھی اور اُس کے حمل کو چھ مہینے سے بھی زیادہ کا عرصہ ہو چکا تھا۔

اس خاتون نے بعد ازاں بچے کو پیدا تو کیا تھا لیکن اُسے اپنے پاس رکھنے سے انکار کرتے ہوئے اُسے ریاستی حکومت کے حوالے کر دیا تھا۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours