اسلامک اسٹیٹ گروپ نے شام میں کالے علم کا مرتکب ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے دو خواتین کا سر قلم کر دیا ہے۔ داعش کی طرف سے خواتین کا سر قلم کرنے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔

سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے رامی عبدالرحمان کے بقول دونوں خواتین کو ان کے شوہروں کے ساتھ یہ سزا دی گئی۔ ان خواتین کو جادو ٹونے اور کالے علم کا مرتکب ٹھہرایا گیا تھا۔ آئی ایس کی جانب سے غیر ملکیوں اور مخالفین کے سرقلم کرنا کے واقعات اکثر منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔ رامی عبدالرحمان نے یہ بھی بتایا کہ ان دونوں خواتین کا اُن کے شوہروں سمیت شام کے مشرقی صوبے دیر الزور میں سر قلم کیا گیا۔

آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ داعش کی طرف سے ماضی میں دوران جنگ کُرد نسل کی خواتین جنگجوؤں کے سر قلم کیے جاتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ جہادیوں کی طرف سے خواتین کو زنا کے الزام میں سنگسار کرکے ہلاک کیا جا چُکا ہے تاہم آبزرویٹری نے کہا ہے کہ اُس نے پہلی بار اسلامک اسٹیٹ گروپ کی طرف سے سویلین خواتین کے سر قلم کیے جانے کے واقعات نوٹ کیے ہیں اور یہ کہ ان خواتین کا سر عام قلم سر کیا گیا ہے۔ داعش اپنے درندہ صفت اور بہیمانہ قتل جیسی سرگرمیوں کے سبب رفتہ رفتہ غیر مقبول اور ناپسندیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ آبزرویٹری نے کہا ہے کہ یہ تو وہ واقعات ہیں جنہیں اُس نے خود رپورٹ کیا ہے تاہم یہ عین ممکن ہے کہ اس گروپ نے مزید بھی ایسے قتل کیے ہوں۔

آبزرویٹری کے اندازوں کے مطابق آئی ایس نے شام اور عراق میں اپنی خلافت کے قیام کے اعلان کے بعد سے اب تک تین ہزار افراد کے سر قلم کیے ہیں۔ ان میں 78 بچوں سمیت قریب 18 سو سویلین یا شہری تھے۔ آبزرویٹری نے یہ بھی کہا ہے کہ داعش نے ماہ رمضان میں مبینہ طور پر روزے نہ رکھنے کے جرم میں کم از کم آٹھ افراد کو صلیب پر چڑھایا گیا۔ ان آٹھ مصلوب افراد کے جسموں کے ساتھ پوسٹر لگا دیے گئے جن پر درج تھا ’انہوں نے بغیر کسی مذہبی جواز کے روزے کی نافرمانی کی‘۔ ان میں 2 نوعمربچے 

بھی شامل تھے۔ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے رامی عبدالرحمن نے بتایا کہ ان آٹھ افراد کو چوبیس گھنٹے تک صلیب پر لٹکا کر رکھا گیا اور جب انہیں اتارا گیا تو وہ زندہ تھے۔

انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد کا کہنا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ اس طرح کی بہیمانہ سزائیں سر عام دے کر مقامی باشندوں میں اپنی دہشت بٹھانے اور لوگوں کو خوف زدہ کرکے ان علاقوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours