پانچ مکمل یا جزوی نابینا افراد نے مشرقی فرانس کے پہاڑی سلسلے کو عبور کر لیا۔ ان کی مدد اس جی پی ایس نظام نے کی، جس کے خالق یہ امید کرتے ہیں کہ اس سے دنیا بھر میں بصارت کے مسائل کے شکار لاکھوں افراد کی مدد کی جا سکے گی۔

گزشتہ ہفتے فرانسیسی پہاڑی سلسلہ عبور کرنے والے ان کوپیماؤں کے ہاتھوں میں سہارے کے لیے سفید چھڑیاں اور سمارٹ فون ایپ تھے۔ جب کہ اس کے علاوہ ان افراد کو کسی دیکھنے والے رہنما کی سہولت میسر نہ تھے۔ ان افراد نے چھ روز تک جنگلات، کھیتوں اور ووسگس (Cosges) کے پہاڑی سلسلے میں 80 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا اور جرمن سرحد پر پہنچ گئے۔

ان کے پیٹ سے چپکا ایک ناوی رینڈو نامی آلہ انہیں راہ کے نشیب و فراز، کھائیوں، گھاٹیوں اور راہ کی دیگر مشکلات سے باخبر رکھے ہوئے تھے۔ ناوی رینڈو نامی یہ چھوٹا سا آلہ لفظ نیوی گیشن اور کوہ پیمائی کے لیے استعمال ہونے والے فرانسیسی لفظ رینڈون (Rendonne) سے اخذ کیا گیا ہے۔

اسے شمال مشرقی فرانسی شہر اسٹراس برگ کی جامعہ سے وابستہ محققین نے تخلیق کیا ہے۔ اس آلے کی تیاری کا مقصد جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے ضرورت مند افراد کی مدد ہے۔

یہ آلہ کام کچھ یوں کرتا ہے کہ کوئی نابینا شخص چل رہا ہو، تو اس کی معاونت کے لیے ایک برقی آواز ابھرے گی، ’پوائنٹ پندرہ، گیارہ بجے، ایک سو چورانوے میٹر۔‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ دو سو میٹر سے کم فاصلے پر گیارہ بجے کے گھڑیال کی سمت میں مڑ جائیں۔

اس سفر سے قبل فرانسیسی ہائکنگ فیڈریشن نے رضاکاروں کو اس علاقے میں بھیجا تھا، جنہوں نے اس پورے سفر کی تمام تر چھوٹی بڑی اونچائی اور نیچائی کی معلومات جمع کی تھی۔

یہ سفر کرنے والے پیدائشی نابینا ژان کلاؤد ہائم نے کہا، ’یہ چیز اب بھی کچھ مشکل ہے، کیوں کہ اس کی جانب سے بچائی جانے والی سمت پر درست انداز سے عمل پیرا ہونا آسان نہیں۔‘

اس 63 سالہ سابق اسکول ٹیچر کا مزید کہنا تھا، ’اس لیے آپ کے پوری توجہ دینا پڑتی ہے۔‘

تاہم ان کا مسکراتے ہوئے کہنا تھا کہ انہیں اس سفر میں بے انتہا لطف آیا۔ ’اگرچہ میں دیکھ نہیں سکتا، تاہم اس دور افتادہ علاقے کی خوشبو، آس پاس کی چیزوں کو چھونا، بارش اور پرندوں کی چہچہاہٹ سنے اور یہ سب محسوس کرنے کا بھرپور موقع ملا۔‘
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours