اسلام آباد: عدالتی مقدمات کی وجہ سے قدرتی گیس پر تقریباً 145 ارب روپے کے نصف کے ٹیکسوں سے محروم ہونے کے بعد حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو یقین دہانی کرائی ہے کہ اگر سرچارج کے نفاذ کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے روکا گیا تو بجلی کے نرخوں میں مزید ایڈجسٹمنٹ کی جائے گی۔


وفاقی وزیرِ خزانہ نے آئی ایم ایف کو جمع کرائے گئے ایک تحریری بیان میں اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ’’بجلی کے سرچارجز کو درپیش قانونی چیلنجز کے ممکنہ منفی نتائج سے محفوظ رکھنے کے لیے ہماری حکمتِ عملی یہ ہوگی کہ ٹیرف ایڈجسٹمنٹ سمیت سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔ اور اگر ضروری ہوا تو بہترین بین الاقوامی طریقہ کار کی روشنی میں اور نیپرا کی آزادی کو محفوظ بنانے کے لیے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) ایکٹ میں مناسب ترامیم کی جائیں گی۔‘‘


انہوں نے یہاں تک کہا کہ ’’کسی بھی صورت میں ہم ضرورت پڑنے پر تلافی کے اقدامات کے لیے تیار ہیں، اس میں مالی ہدف تک پہنچنے کے لیے ریونیو میں ایڈجسٹمنٹ بھی شامل ہے۔‘‘


حکومت نے آئی ایم ایف کو واضح کیا ہے کہ گیس کے انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ کے محصول (جی آئی ڈی سی) کی 145 ارب روپے کے ریوینیو کے ہدف میں سے صرف 75 ارب روپے تیس جون 2015ء کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران وصول کیے گئے تھے، اس لیے کہ اس حوالے سے کئی عدالتوں قانونی چیلنجز درپیش تھے۔


آئی ایم ایف کی جانب سے شایع کی جانے والی دستاویز کے مطابق بجلی کے شعبے کےلیے مارچ 2015ء کے اختتام تک 615 ارب روپے واجب الادا تھے۔


اس میں بجلی کے شعبے کی کمپنیوں کو ادا کیے جانے والے 280 ارب روپے کے گردشی قرضے اور پاور سیکٹر ہولڈنگ کمپنی لمیٹڈ (پی ایچ سی ایل) کی جانب سے 335 ارب روپے کے بقایاجات کا اسٹاک بھی شامل ہے۔


سرکاری اور نجی صارفین سے متعلق نمایاں عدم وصولی، پی ایچ سی ایل کے قرض پر سود کی عدم وصولی، لائن کے نقصانات جنہیں ٹیرف میں تسلیم نہیں کیا جاتا ہے، ایف بی آر کی جانب سے اکھٹا کیے گئے اضافی جی ایس ٹی کی واپسی میں تاخیر،تاخیر سے ادائیگی کے سرچارجز، اور ٹیرف کے تعین میں تاخیر کی وجہ سے یہ بقایاجات بڑھتے گئے ہیں۔


حکام نے کا ارادہ ہے کہ واجب الادا رقم کو کم کیا جائے۔ اس میں وصولیوں کو بہتر بنانےآپریشن کے اخرجات اور نقصانات کو کم کرنے سمیت اقدامات شامل ہیں۔


واجب الادا رقم کے بڑھتی ہوئی مقدار کو ایک اندازے کے مطابق مالی سال 2014-15ء میں 175 ارب روپے سے کم کرکے اس سال 113 ارب روپے تک لایا جائے گا۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours