برطانوی پولیس کے مطابق خدشہ ہے کہ لندن کے نزدیکی شہر لوٹن سے 12 افراد کا ایک کنبہ شام چلا گیا ہے۔


اس پورے کنبے کو 17 مئی کے بعد سے، جب وہ اپنے آْبائی ملک بنگلہ دیش سے واپس برطانیہ واپس آ رہے تھے، دوبارہ نہیں دیکھا گیا ہے۔


ان لاپتہ لوگوں میں ایک بچہ اور اُس کے دادا دادی بھی شامل ہیں۔


اندازہ یہ ہے کہ یہ افراد بنگلہ دیش سے برطانیہ واپس آتے ہوئے ترکی میں رکے جہاں سے پورا کنبہ جنگ زدہ شام میں داخل ہو گیا۔


برطانیہ میں اِن لوگوں کے عزیزو اقارب کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ اِس کنبے کی گمشدگی خاندان کے مزاج کے منافی ہے جس سے رشتے دار شدید صدمے میں ہیں۔


بیڈفورڈشائر پولیس نے اِس خاندان کے شام چلے جانے کی تصدیق نہیں کی ہے اور کہا ہے کہ اِس بارے میں تفتیش جاری ہے۔ پولیس نے یہ بھی نہیں بتایا ہے کہ آیا اِس خاندان کو کوئی فرد مشتبہ شدت پسندوں کی فہرست میں تھا یا نہیں۔


حکام کو خاندان کے لاپتہ ہو جانے کی اطلاع عبدالمنان کے دو بیٹوں نے دی جو اُن کی پہلی شادی سے ہیں اور لوٹن ہی میں مقیم ہیں۔


لاپتہ افراد میں 75 برس کے محمد عبدالمنان اور اُن کی 53 برس کی اہلیہ منیرہ خاتون، اِن کا 31 برس کا شادی شدہ بیٹا محمد ابی القاسم اور اُس کی 27 برس کی بیوی شاہدہ خانم، محمد عبدالمنان کی 21 برس کی بیٹی راجیہ خانم، دو بیٹے 25 اور 19 برس کے زید حسین اور توفیق حسین اور 26 برس کے صالح حسین اور اُن کی 24 برس کی بیوی روشن آرا بیگم اور اُن کے ایک سے 11 سال تک کے تین بچے شامل ہیں۔


عبدالمنان ذیابیطس کے مریض ہیں جبکہ اُن کے اہلیہ کو سرطان ہے۔


پولیس کے مطابق یہ خاندان دس اپریل کو بنگلہ دیش گیا تھا اور ایک ماہ بعد برطانیہ واپس آتے ہوئے ترکی میں رکا۔ اِن لوگوں کو 14 مئی کو واپس آ جانا تھا۔


پولیس کے مطابق اِن لوگوں میں سے ایک فرد برطانیہ میں موجود اپنے رشتہ داروں سے رابطے میں ہے لیکن پولیس نے یہ نہیں بتایا کہ یہ لاپتہ لوگ کہاں ہیں۔


اب تک 54 شدت پسند شام اور عراق جا چکے ہیں اور ان میں لوٹن کے ابوعزیز بھی شامل ہیں جو ایک شخص پر حملے کے مـجرم قرار دیے گئے تھے لیکن وہ اِس کے بعد برطانیہ سے فرار ہوگئے تھے۔


لوٹن کی ایک خاتون رونا خان کو، جن کے چھ بچے ہیں، شام میں دہشت گردی کو ہوا دینے کے الزام میں گذشتہ برس سزا سنائی گئی تھی۔


ابھی تک یہ معلوم نہیں ہے کہ گمشدہ خاندان کا کوئی بھی فرد ابوعزیز یا رونا خان سے راطے میں تھا نہیں۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours