متحدہ عرب امارات دنیا کے خشک ترین ممالک میں سے ایک ہے، جہاں اب یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ اپنی فضا سے گزرنے والے بادلوں کو مجبور کر دیا جائے کہ وہ برس پڑیں۔

العین ہوائی اڈے پر دو جہاز تیارکھڑے دکھائی دے رہے ہیں، جن کا مشن ہے کہ جب بھی کوئی ایسا بادل دکھائی دے، جو بارش کا باعث بن سکتا ہو، تو اس پر خصوصی محلول کی بوچھار کر کے اسے برسنے پر آمادہ کر لیا جائے۔ ’کلاؤڈ سِیڈنگ مشن‘ میں پانی سے بھرپور بادلوں پر نمکین محلول کا اسپرے کر کے انہیں گاڑھا کر دیا جاتا ہے، جس سے بارش کی امید بڑھ جاتی ہے۔

تیل کی دولت سے مالا مال اس خلیجی ملک کی مجموعی آبادی آٹھ ملین ہے، تاہم اسے دنیا کے 10 سب سے زیادہ خشک ممالک میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔ متحدہ عرب امارات میں سالانہ بارش کی اوسط 78 ملی میٹر ہے، جو برطانیہ میں ہونے والی سالانہ بارش سے 15 گنا سے بھی کم ہے۔

متحدہ عرب امارات کا مرکز برائے موسمیات و ارضیات NCMS ایک پروگرام شروع کیے ہوئے ہے، جسے کلاؤڈ سِیڈنگ پروگرام کہا جاتا ہے۔

اس مرکز کا کام یہ ہے کہ موسمی صورت حال کے تحت پائلٹس کو یہ بتایا جائے کہ وہ کب اور کن بادلوں پر خصوصی نمکین محلول چھڑک آئیں۔

اس ادارے سے وابستہ ایک چیف پائلٹ مارک نیومین کے مطابق، ’جیسے ہی وہ دیکھتے ہیں کہ پانی سے بھرپور بادل پیدا ہوئے ہیں یا آ رہے ہیں، وہ ہمیں کہتے ہیں کہ اڑو اور جانچ پڑتال کرو اور کوشش کرو کہ ان بادلوں پر یہ محلول چھڑکا جائے۔‘

نیومین نے بتایا کہ ان کے مرکز میں چار بیچ کرافٹ کنگ ایئر سی 90 جہازوں کا فلیِٹ موجود ہے اور اس سلسلے میں موسم گرما انتہائی مصروفیت کا وقت ہوتا ہے۔

نیومین کے مطابق، خلیج عدن میں پیدا ہونے والی گرم ہوائیں الحجر کے مشرقی پہاڑی سلسلے سے گزرنے والے بادلوں کا رخ موڑ دیتی ہیں۔ ایسے میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون سے بادل ممکنہ بارش کا باعث بن سکتے ہیں اور پھر ان پر ہوائی جہازوں کی مدد سے خصوصی محلول اسپرے کیا جاتا ہے۔ ’جتنا اسپرے کیا جاتا ہے، بارش کے امکانات بھی اتنے ہی بڑھ جاتے ہیں۔‘

نیومین کا کہنا ہے، ’جب ہمیں لگتا ہے کہ یہ کم کثیف بادل ہیں، تو ہم ان پر ایک یا دو فلیئرز چھڑکتے ہیں، اگر زیادہ کثیف ہوں تو چار یا کبھی کبھی چھ بھی۔‘

نیومین کے مطابق محلول چھڑکے جانے کے بعد تمام بادل بارش نہیں برساتے مگر عموماﹰ بارش ہو ہی جاتی ہے۔

’’یہ بہت زبردست ہے۔ جیسے ہی بارش ہوتی ہے، ہم ہر طرف خوشی دیکھ سکتے ہیں۔ دفتر میں بیٹھے ہمارے دوستوں کو بھی شاداں ہو جاتے ہیں۔‘

خیال رہے کہ کلاؤڈ سیڈنگ طریقہء کار کی صلاحیت پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں، تاہم کولوراڈو کے امریکی سیاحتی مقام پر شدید بارشوں کو روکنے کے لیے بھی ایسا ہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے، جب کہ سن 2008ء میں چین نے بھی ایسے ہی ایک طریقے سے اولمپک کھیلوں کے موقع پر بادلوں کو ہٹا کر مقابلوں کے علاقے کو بارش سے بچائے رکھا تھا۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours