پنجاب کے وزیر داخلہ شجاع خانزادہ نے کہا ہے کہ رواں ہفتے مشرقی شہر لاہور کے نواح میں پولیس کے ایک چھاپے کے دوران جو چار عسکریت پسند مارے گئے، اُن میں پاکستان میں القاعدہ کا سربراہ ’ابدالی‘ بھی شامل تھا۔


صوبائی وزیر داخلہ شجاع خانزادہ نے لاہور میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے القاعدہ کے اس ہلاک ہونے والے سربراہ کا نام صرف ’ابدالی‘ بتایا اور کہا کہ وہ اور تین دیگر عسکریت پسند حکومتی شخصیات پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔


صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے صوبائی وزیر داخلہ نے کہا:’’یہ لیڈر، جو اُن کو ہدایات دے رہا تھا، جو اس پوری ٹیم کی قیادت کر رہا تھا، یہ پاکستان میں القاعدہ کا سربراہ تھا، اس کا نام ابدالی تھا۔‘‘


بعد ازاں شجاع خانزادہ نے ٹیلی فون پر روئٹرز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ ابدالی اُن چار ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں میں سے ایک تھا، جو رواں ہفتے پیر کے روز لاہور کے قریب ہی چھوٹے سے قصبے فیروز والا میں اُس وقت ہلاک ہو گئے، جب پاکستانی سکیورٹی فورسز نے اُن کے ٹھکانے پر چھاپہ مارا۔


اس چھاپے کے فوراً بعد پولیس نے بتایا تھا کہ اس چھاپے کے دوران عسکریت پسندوں کے قبضے سے اے کے سینتالیس رائفلوں کے ساتھ ساتھ راکٹ لانچرز، خود کُش جیکٹیں اور لیپ ٹاپس بھی برآمد کیے گئے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اس دوران اکتالیس دستی بم بھی برآمد کیے گئے۔ لاہور سے شمال کی جانب اٹھارہ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع فیروز والا میں اس چھاپے کے دوران دو عسکریت پسندوں کو زخمی حالت میں زندہ گرفتار کر لیا گیا تھا۔ شجاع خانزادہ کے مطابق ان عسکریت پسندوں نے افغانستان اور القاعدہ کے کیمپوں میں پانچ ماہ تک تربیت حاصل کی تھی۔


بتایا گیا ہے کہ حکام نے ان عسکریت پسندوں کی وہاں موجودگی کے حوالے سے ملنے والی ایک اطلاع پر کارروائی کی تھی۔ انٹیلیجنس ذرائع سے حکام کو پتہ چلا تھا کہ یہ عسکریت پسند انٹیلیجنس بیورو نامی سویلین انٹیلیجنس ادارے کے صوبائی ہیڈکوارٹرز پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔


صوبائی وزیر داخلہ شجاع خانزادہ نے بتایا کہ القاعدہ کی جنوبی ایشیائی شاخ کا لیڈر مولانا عاصم عمر اصل منصوبہ ساز تھا۔ اے ایف پی کے مطابق اس دعوے کی کسی آزاد ذریعے سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔


اگرچہ دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے سابق سربراہ اُسامہ بن لادن کو مئی 2011ء میں پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں امریکی خصوصی یونٹوں کی ایک کارروائی کے دوران ہلاک کر دیا گیا تھا تاہم یہ تنظیم آج بھی پاکستان میں مصروفِ عمل ہے۔


پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن ’ضربِ عضب‘ کے دوران پاکستانی فوج انتہا پسندوں کے خلاف زمینی اور فضائی آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے، جس کی وجہ سے بہت سے مسلمان عسکریت پسند افغانستان کے ساتھ ملنے والے مغربی سرحدی علاقوں سے ملک کے دیگر علاقوں کی جانب فرار ہو چکے ہیں۔ فوج کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کے دوران اب تک سینکڑوں عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours