ملیریا سے بچاؤ کے لیے دنیا میں تیار کی گئی پہلی ویکسین کے افریقہ میں عوامی استعمال کی راہ میں حائل آخری رکاوٹ بھی دور ہوگئی ہے۔

یورپ میں ادویات کے استعمال کے منتظم ادارے یورپی ادویہ ایجنسی نے اس ویکسین کے محفوظ ہونے اور اس کے اثرات کو جانچنے کے بعد اس کے بارے میں مثبت سائنسی رائے دی ہے۔

موسکیورکس نامی ویکسین کو مشہور دوا ساز کمپنی گلیکسو سمتھ کلائن نے بنایا ہے اور یورپی ادارے کی رائے کو اس کے استعمال کے لیے ’گرین سگنل‘ قرار دیا جا رہا ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ بچوں کو یہ ویکسین لگائے جانے کے بارے میں وہ اپنی تجویز رواں سال ہی دے گا۔ بچوں پر اس ویکسین کے تجربات کے ملے جلے نتائج سامنے آئے ہیں۔

ملیریا کی وجہ سے ہر سال دنیا بھر میں پانچ لاکھ 84 ہزار افراد ہلاک ہو جاتے ہیں جن میں سے زیادہ تر پانچ سال سے کم عمر کے وہ بچے ہیں جن کا تعلق صحرائے صحارا کے ذیلی علاقوں سے ہے۔
’خواب سچ ہوگیا‘

موسکیورکس جسے عام طور پر آر ٹی ایس ایس کا نام دیا گیا ہے پہلی ویکسین ہے جسے انسانوں کو لاحق ہو جانے والے طفیلی انفیکشن کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔

جی ایس کے ویکسین کی ریسرچ کے سربراہ ڈاکٹر رپلے بالو کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک بہت اہم لمحہ ہے، میں اس ویکسین پر گذشتہ 30 سالوں سے کام کر رہا ہوں اور یہ خواب سچ ثابت ہو گیا ہے۔‘

کمپنی کی جانب سے ابھی اس ویکسین کی قیمت نہیں بتائی گئی تاہم کمپنی نے یہ ضمانت دی ہے کہ وہ اس کی فروخت میں کوئی منافع نہیں لے گی۔

اس ویکسین کو خاص طور پر افریقہ میں موجود بچوں کو ملیریا سے بچانے کے لیے تیار کیا گیا ہے اور اسے بیرونی علاقوں کو جانے والوں کو نہیں دیا جائے گا۔

رواں سال کے آغاز میں جب سات افریقی ممالک میں اس ویکسین کا تجربہ کیا گیا تو ملے جلے نتائج موصول ہوئے تھے۔

اس میں بہترین بچاؤ 17 ماہ سے پانچ سال کی عمر کے بچوں میں سامنے آیا جنھیں نے ایک مہینے کے وقفے سے تین بار یہ ویکسین دی گئ۔ اس کے علاوہ 20 مہینوں کے بعد دوا کو بڑھایا گیا۔

اس گروہ میں ملیریا سے شدید متاثر ہونے والے مریضوں کی تعداد چار برس میں ایک تہائی کم ہوگئی لیکن اس ویکسین کی تاثیر وقت کے ساتھ ساتھ کمزور ہو جاتی ہے۔

تجرباتی دور میں یہ بھی سامنے آیا کہ جب تک ویکسین کو بار بار نہیں دیا جائے گا ملیریا کی شدت کو کم کرنا ممکن نہیں ہوگا۔

مایوس کن بات یہ ہے کہ یہ ویکسین بہت چھوٹے بچوں کو شدید ملیریا کے سے بچانے میں بہت موثر نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ ڈبلیو ایچ او گو مگو کی کیفیت میں ہے۔ اسے اکتوبر میں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس ویکسین کو استعمال کرنا ہے یا نہیں کیونکہ یہ اتنی موثر ثابت نہیں ہوئی جتنی سائینس دانوں کو توقع تھی۔

ملیریا پلازموڈیم فالسی پارم نامی طفیلے کی وجہ سے ہوتا ہے جو کہ مادہ مچھر اینو فیلیس انسان کے خون میں منتقل کرتی ہے۔

یہ توقع کی جا رہی تھی کہ یہ ویکسین چھ ، دس یا 14 ہفتوں میں بچوں کو دی جانے والی دیگر ویکسینز کی طرح اپنا کام دکھا سکے گی۔ تاہم نتائج نے ثابت کیا کہ ایسا نہیں ہے اسے بچپن میں دی جانے والی ابتدائی ویکسینز کے کچھ عرصے بعد دی جائے گی اس پر اضافی اخراجات آئیں گے۔

یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بچے کے لیے یہ ضروری ہو گا کہ ملیریا سے بچاؤ کے لیے اسے تمام چار ڈوز دی جائیں۔

افریقہ میں اس ویکسین پر 30 سال قبل تحقیق کا آغاز ہوا تھا اور بہلا تجربہ 1998 میں کیا گیا تھا۔

سنہ 2001 میں جی ایس کے اور پاتھ نامی کمپنی نے پاٹنر شپ قائم کی تھی اور انھیں بل اور ملینڈا فاؤنڈیشن کی جانب سے امداد بھی دی گئی تھی۔ اس پاٹنر شپ کا مقصد ویکسین کی تیاری کے لیے کوششوں کو تیز کرنا تھا۔

سنہ 2009 میں اس سینٹر کی جانب سے سات افریقی ممالک سے 16 ہزار بچوں کا چناؤ شروع کیا گیا تھا۔ جن میں تنزانیہ، کینیا، گھانا، گابون، فاسو اور برکینا شامل تھے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours