معذور کھلاڑیوں کے ایک ریسلنگ یا کشتی کے کلب پر ایک دستاویزی فلم بنائی جا رہی ہے۔ فلم کے ڈائریکٹر ہیتھ کوزین امید کرتے ہیں کہ یہ فلم معذوری کے بارے میں لوگوں کے تصورات کو چیلینج کرے گی۔

جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو شہر کے مرکزی علاقے کے ایک روایتی ٹاؤن ہال میں ایک معذور شخص دوسرے شخص کے سر میں ٹکر مار رہے ہیں۔ دونوں مردوں کی ٹانگیں جڑی ہوئی ہیں اور وہ ریسلنگ رنگ میں لیٹے ہوئے لڑ رہے ہیں۔اگلی کُشتی 46 سالہ شنتارو یانو لڑیں گے۔ شنتارو اپنے آپ کو ’سامبو‘ کہتے ہیں۔ وہ دماغی فالج کے مریض ہیں۔

ان کے حریف یوکنوری ’اینٹی تھیسس‘ کیتاجیما ہیں جو بڑے لمنے عرصے سے ان سے مقابلہ کرتے آئے ہیں۔ لیکن کیتاجیما معذور نہیں ہیں اور شینتارو سے زیادہ طاقتور ہیں۔

خاتون میزبان دونوں کی لڑائی کے آغاز کا اعلان کرتی ہیں اور کشتی شروع ہو جاتی ہے۔

ہیتھ کوزین ایک صحافی اور دستاویزی فلم ساز ہیں جو ان ریسلرز کو کُشتی کرتے ہوئے پانچ سال سے دیکھ رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ جب انھوں نے پہلی بار معذور افراد کی کُشتی میں دیکھا کہ لڑائی کے دوران معذور لوگوں کا خون بہہ رہا تھا تو انھیں اس بات سے بہت تکلیف پہنچی تھی۔

انھوں نے کہا ’میں اتنا حیران ہوا کہ میں ہنسنے والا تھا۔ پھر مجھے معذور لوگوں پر ہنسنے کا خیال بہت برا لگا اور میں شرمندہ ہوا۔ مجھے یہ نہیں سمجھ آرہی تھی کہ یہ استحصال ہے، تفریح ہے یا پھر سچی مساوات۔‘

شروع میں انھیں لگا کہ ان لوگوں کے ساتھ بدسلوکی ہو رہی تھی خاص طور پر جب انھیں احساس ہوا کے صحت مند لوگ معذور لوگوں سے لڑ رہے تھے جن کی طاقت نسبتاً کم تھی۔ انھوں نے یہاں تک کہ یہ بھی سوچا لیا کہ وہ اس عمل کو بے نقاب کریں گے لیکن جب انھوں نے کھلاڑیوں سے بات کرنا شروع کی اور انھیں فلم کرنا شروع کیا تو ان کے خیالات بدل گئے۔ ان کی نئی دستاویزی فلم شروع بننا ہو گئی۔

فلم کا نام ’ڈاگ لیگس‘ یعنی ’کتوں کی ٹانگیں‘ ہے جو اس ریسلنگ کلب کے نام پر مبنی ہے۔ یہ فلم اس کلب کے پانچ کھلاڑیوں کی ذاتی اور کلب کی زندگی کے بارے میں ہے۔ کوزین کے لیے یہ ان کی زندگی کے حقائق اور یہ دکھانے کا موقعہ ہے کہ رنگ کے اندر اور باہر ان کی زندگی کے مناظر کتنے متضاد ہیں۔

انھوں نے کہا ’یہ وہ لوگ ہیں جو انتہائی تعصب کا شکار ہیں۔ لیکن ڈاگ لیگس انھیں موقعہ دیتا ہے کہ یہ اپنی روز مرہ کی زندگی کو تھوڑی دیر کے لیے بھلا سکیں۔‘

اس فلم کے مرکزی کردار شنتارو ہیں جنھوں نے 20 سال پہلے ڈاگس لیگس کا آغاز کیا تھا جب انھوں نے ایک خاتون کا دل جیتنے کے لیے ایک اور معذور شخص کے ساتھ لڑائی کی تھی۔ اس لڑائی کے بعد دونوں کو احساس ہوا کہ انھیں مقابلا کرنے میں اور لڑنے میں کتنامذا آیا تھا۔انھوں نے اپنے پرانے دوست اور ریسلنگ پارٹنر کیتاجیما کے ساتھ ڈاگ لیگس کلب شروع کیا جو معذور لوگوں کے لیے ان کی روز مرہ کی زندگی کے مسائل سے دور لے جتا ہے۔

آج اس کلب کے 40 ریسلر ہیں۔ سینکڑوں لوگ ان کی لڑائیاں دیکھنے کے لیے آتے ہیں جو خد بھی معذور ہوتے ہیں۔ کوزین کہتے ہیں کہ یہ ایک کمیونٹی ہے جس کا مرکز معذوری ہے۔

تکنیکی طور پر ریسلروں کو چار مختلف طبقوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ لیٹ کر لڑنے والے، بیٹھ کر لرنے والے، کھڑے ہو کر لڑنے والے اور باقی سب لوگوں کے لیے ایک طبقہ۔

اس آخری طبقے کے قوانین کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔39 کلو گرام کے وزن کے اوگا اپنی بیوی سے مقابلہ کرتے ہیں جن کا وزن 80 کلو گرام ہے۔ دونوں کی طاقت کو تھوڑا بہت برابر کرنے کے لیے ان کی بیوی کی ٹانگیں باندھ دی گئی ہیں لیکن اس کے باوجود بھی وہ کود کر اوگا پر اپنا پورا وزن گرا سکتی ہیں یا پھر انھیں اٹھا کر پھینک سکتی ہیں۔

یہ خیال کے اوگا کو اس قسم کی مار کھانے کا مزہ آتا ہوگا لگتا تو ناممکن ہے لیکن ایک ہی لڑائی کے بعد انھیں فتح مل جاتی ہے اور وہ مائیکروفون لے کر کہتے ہیں ’یہ وہ ایک جگہ ہے جہاں ہم دونوں لڑ سکتے ہیں۔ میں اس رنگ میں تب تک لڑوں گا جب تک میں زندہ ہوں۔‘

یہ واضح ہو چکا ہے کہ اوگا صرف اس رنگ میں ہی کھڑے ہو کر اپنے آپ کو کسی کے برابر سمجھتے ہیں۔ کوزین کہتے ہیں کہ یہی وہ بات ہے جس کی وجہ سے یہ ریسلر یہاں پر لڑنا چاہتے ہیں، چاہے انھیں کتنا بھی درد ملے۔کوزین یہ بھی کہتے ہیں کہ لوگ ان کی فلم دیکھ کر تکلیف محسوس کر سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا ’کئی غیر معذور لوگ معذور لوگوں کے جسم صحیح طرح سے نہیں دیکھ پاتے ہیں۔ لیکن ڈاگس لیگس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ معذور لوگ بنا کسی معافی مانگے کہہ سکتے ہیں کہ ’مجھے اور میرے جسم کو لڑتے ہوئے دیکھو اور اس پر غور کرو۔‘

کوزین کہتے ہیں کہ ان کی دستاویزی فلم کا بنیادی مقصد معذوری کے بارے میں لوگوں کے تصورات کو چیلنج کرنا ہے۔ جہاں تک ڈاگس لیگس اور ریسلروں کے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کے ’ٹھیک‘ ہونے یا نہیں کا سوال بنتا ہے، اس کا جواب دینا وہ ناظر پر چھوڑتے ہیں۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours