جون 2015


ایران اور مغربی ممالک کے درمیان جوہری معاہدے کی ڈیڈ لائن جانے کے بعد فریقین نے معاہدے پر پہنچنے کے لیے ایک ہفتہ مزید بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔


ایران اور مغربی ممالک نے جوہری معاہدے پر پہنچنے کے لیے 30 جون کی خود ساختہ ڈیڈ لائن مقرر کر رکھی تھی۔


سفارت کاروں کے مطابق ابتدائی معاہدے کی اہم شرائط پر اتفاق ہو گیا ہے جس میں ایران نے یورینیم کی افزدوگی کو سطح تک لانے پر رضامندی ظاہر کی ہے جس کے نتیجے میں جوہری بم بنانا مشکل ہو گا۔


روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا ہے کہ اب بھی کئی معاملات طے کرنا باقی ہیں تاہم انھیں یقین ہے کہ معاہدہ اب بھی پہنچ میں ہے۔


یورپی اتحاد نے معاہدے کی ڈیڈ لائن گزرنے کے بعد ایران پر عائد پابندیوں میں مزید ایک ہفتے کی توسیع کر دی ہے۔


اس سے پہلے منگل کو ایران کے وزیرِ خارجہ عالمی طاقتوں کے ساتھ ایران کے جوہری پروگرام کے سلسلے میں جاری مذاکرات کے آخری مراحل کے لیے ویانا پہنچ گئے ہیں۔


محمد جواد ظریف کے ہمراہ ایران کی جوہری ایجنسی کے سربراہ اور صدر حسن روحانی کے بھائی بھی موجود ہیں۔ مذاکرات میں شامل کئی اہلکاروں کا کہنا تھا کہ انھیں ان مذاکرات میں حتمی مہلت سے پہلے معاہدہ طے پانے کی امید نہیں تاہم مذاکرات میں بہت پیش رفت ہو چکی ہے۔


دوسری جانب بی بی سی کے نامہ نگار کی رائے ہے کہ مذاکرات میں کامیابی ابھی دور ہے۔


مذاکرات میں شامل امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، چین اور جرمنی (پی فائیو پلس ون ممالک) چاہتے ہیں کہ ایران اپنے جوہری پروگرام میں حساس سرگرمیاں روک دے تاکہ وہ جوہری ہتھیار نہ بنا سکے۔


اس کے عوض ایران چاہتا ہے کہ بین الاقوامی تجارتی پابندیاں ہٹا دی جائیں اور اس کا اصرار ہے کہ ان کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔


ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ وزیرِ خارجہ جواد ظریف اٹامک انرجی آرگنائزیشن آف ایران کے سربراہ علی اکبر صالحی سمیت صدر روحانی کے بھائی اور مشیر حسین فریدون منگل کو ویانا پہنچے۔


ایران کی ریاستی خبر رساں ایجنسی کا کہنا ہے کہ علی اکبر صالحی کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ ایران مذاکرات میں تیزی لانا چاہتا ہے اور جلد از جلد معاہدے کو حتمی شکل دینا چاہتا ہے۔


امریکی یونیورسٹی ایم آئی ٹی سے تعلیم یافتہ،جوہری معاملات میں ایران کے اہم ترین تکنیکی ماہر علی اکبر صالحی مذاکرات کے گذشتہ دور میں خرابیِ صحت کی وجہ سے شامل نہیں ہو سکے تھے۔


منگل کی صبح امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے ملاقات کرنے سے پہلے ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے صحافیوں کو بتایا کہ ’میرے خیال میں مذاکرات انتہائی نازک مرحلے پر ہیں۔ ہم پیش رفت کر سکتے ہیں مگر اس کے لیے سیاسی عزم کی ضرورت ہوگی اور ابھی بہت کام کرنا ہے۔‘


انھوں نے مزید کہا کہ ’میں یہاں حتمی معاہدہ کروانے آیا ہوں۔‘


ویانا سے بی بی سی کے نامہ نگار جیمز رابنز کا کہنا ہے کہ پی فائیو پلس ون ممالک کے وزرائے خارجہ آئندہ ہفتے میں مختلف موقعوں پر مذاکرات میں شامل ہوں گے۔


امریکی صدر اوباما کے پاس مذکورہ معاہدے کو کانگریس کے سامنے رکھنے کے لیے نو جولائی کی آخری تاریخ ہے۔ اگر صدر اوباما نو جولائی سے پہلے یہ معاہدہ کانگریس کے سامنے لے آئے تو اس پر نظر ثانی کرنے کے لیے 30 روز تک کا وقت دیا جا سکتا ہے اور اس وقت کے لیے امریکی پابندیاں منسوخ کی جا سکتی ہیں۔


مگر اگر صدر اوباما یہ معاہدہ نو جولائی کے بعد کانگریس کو پیش کرتے ہیں تو یہی وقت 60 روز کا ہو گا۔


یونان کی طرف سے بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے لیےگئے قرض کی قسط کی ادائیگی کی حتمی مدت ختم ہو گئی ہے جبکہ یونان نے مہلت ختم ہونے سے پہلے یورو زون سے 29.1 ارب یورو کے بیل آؤٹ پیکیج کی درخواست کی تھی۔


یونان نے 30 جون تک آئی ایم ایف کو 1.1 ارب یورو کی قسط ادا کرنی تھی لیکن اب وہ پہلا ترقی یافتہ ملک بن گیا ہے جو آئی ایم ایف کا ڈیفالٹر بن گیا ہے۔


مہلت ختم ہونے سے پہلے یونان نے دو سال کے لیے 29.1 ارب یورو کی نئے بیل آؤٹ پیکیج کی درخواست کی ہے تاکہ سنہ2017 تک اپنے قرض کی قسطیں ادا کر سکے۔


یونان کی اس درخواست پر یورو زون کے وزراء خزانہ کی ویڈیو کانفرنس کے ذریعے بات چیت ہوئی ہے تاہم ابھی اس پر کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔


ادھر یونانی وزیر اعظم ایلکسس تسیپراس آئی ایم ایف کے قرض کی ادائیگی کے لیے یورپی یونین سے قرض لینے کے ساتھ وابستہ کفایت شعاری کی شرائط ماننے سے انکار کر رہے ہیں اور انھوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر یونانی عوام نے ریفرینڈم میں کفایت شعاری کی تجاویز ماننے کے حق میں ووٹ دیا تو وہ اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہو جائیں گے۔


یونان کے وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ یونانی عوام کا واضح جواب ہی ملک کے بیرونی قرضوں کے بحران کے موافق حل کے سلسلے میں ان کی مدد کر سکتا ہے۔


پیر کی شب یونانی ٹی وی پر ایک انٹرویو میں ایلکسس تسیپراس نے کہا کہ اتوار کو ریفرینڈم میں عوام کی جانب سے ’نفی‘ کا ووٹ ان کی حکومت کو قرض کے معاملے پر بات چیت کے دوبارہ آغاز کے لیے بہتر پوزیشن دے سکتا ہے۔


یونان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے رکھی گئی شرائط تسلیم کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں ملک میں پانچ جولائی کو ریفرینڈم منعقد ہو رہا ہے۔


تاہم انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ووٹروں نے ان کے منصوبوں کو رد کر دیا تو وہ مزید کٹوتیوں سے قبل ہی مستعفی ہو جائیں گے۔


ایلکسس تسیپراس نے کہا کہ ’اگر یونانی عوام کفایت شعاری کے منصوبے جاری رکھنا چاہتے ہیں تو ایسی صورت میں ہم سر اٹھانے کے قابل نہیں رہیں گے مگر ان کی خواہش کا احترام کریں گے لیکن وہ ہم نہیں ہو گے جو یہ اقدامات کریں گے۔‘


یونانی وزیرِ اعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ یونان کے قرض خواہ یہ نہیں چاہتے کہ ملک دیوالیہ ہو یا یورو زون سے نکال دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’وہ ہمیں یورو زون سے باہر نہیں نکالیں گے کیونکہ ایسا کرنے کی انھیں بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔‘


یونانی وزیرِ اعظم کا یہ بیان ایک ایسے موقعے پر آیا ہے جب یونان کے پاس بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے لیے گئے قرض کی قسط کی مد میں ایک ارب 60 کروڑ یورو کی ادائیگی کے لیے دی گئی حتمی مدت کے خاتمے میں چند ہی گھنٹے باقی بچے ہیں۔


ادھر یورپی یونین کے رہنماؤں نے یونان کو خبردار کیا ہے کہ اگر قرض خواہوں کی تجاویز مسترد کر دی گئیں تو اس کا مطلب یونان کا یورو زون سے اخراج ہو گا۔


تاہم جرمنی کے وزیر خزانہ سیگمار گیبریئل نے کہا ہے کہ ووٹ کا مطلب ’یورو زون کو ہاں یا نہ‘ کہنا ہو گا۔


جرمنی کے وزیر خزانہ کے علاوہ یورو زون کی دیگر دو بڑی معاشی طاقتوں کے رہنماؤں کے مطابق یونان کی عوام کو ریفرینڈم میں موثر طریقے سے اس بات کو طے کرنا ہو گا کہ وہ یورو زون میں رہنا چاہتے ہیں یا نہیں۔


اٹلی کے وزیراعظم ماتیو رینتسی کا کہنا ہے کہ ریفرینڈم یورو اور یونان کی پرانی سرکاری کرنسی کے درمیان انتخاب ہو گا جبکہ فرانس کے صدر فرانسوا اولاند نے کہا ہے کہ’ اس وقت داؤ پر یہ لگا ہے کہ آیا یونان یورو زون میں رہنا چاہتا ہے۔‘


برطانوی وزیر خزانہ جارج اوسبورن نے کہا ہے کہ یونان کا انخلا صدمے کا باعث ہو گا اور برطانیہ اس کے اثرات کو ہلکا نہیں لینا چاہیے۔


یونان کو دیوالیہ پن سے بچانے کے لیے بیل آؤٹ پیکیج پر یورپی ممالک اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے درمیان ہفتہ بھر جاری رہنے والے مذاکرات کسی معاہدے پر پہنچنے میں ناکام رہے تھے۔


ان مذاکرات کی ناکامی اور یورپی سینٹرل بینک کی جانب سے ہنگامی امدادی فنڈ میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے یونانی حکومت پہلے ہی ملک کے تمام بینک ایک ہفتہ تک بند رکھنے کا اعلان کر چکی ہے۔


حکومت کی جانب سے جاری ہونے والے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ سرمایہ یا نقدی کی قلت کی وجہ سے ملک کے مالیاتی نظام کو بچانے کے لیے یہ ’انتہائی ضروری‘ اقدام ہے۔



ہالی وڈ جوڑے بین ایفلک اور جینیفر گارنر نے اعلان کیا ہے کہ انھوں نے اذدواجی بندھن ختم کرتے ہوئے ’طلاق کا ایک مشکل فیصلہ کیا ہے۔‘


اداکار بین ایفلک اور اداکارہ جینیفر گارنر کی سنہ 2005 میں شادی ہوئی تھی اور ان کی تین اور نو سال کے درمیان تین بچے ہیں۔


انھوں نے ایک بیان میں کہا ہے: ’ہم ایک دوسرے کے لیے دوستی اور محبت قائم رکھتے ہوئے یہ قدم اٹھارہے ہیں اور اپنے بچوں کی مشرکہ طور پر پرورش کریں گے۔‘


42 سالہ بین ایفلک اپنی آنے والی فلم ’بیٹ مین ورسز سپرمین‘ میں بیٹ مین کا کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ جینیفر گارنر بھی ہالی وڈ کی معروف اداکارہ ہیں۔


بین ایفلک نے بطور اداکار اور ہدایت کار دونوں شعبوں میں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ انھوں نے سنہ 1997 میں ’گڈ ول ہنٹنگ‘ کے سکرین پلے پر آسکر ایوارڈ حاصل کیا تھا، ان کو دوسرا آسکر ایوارڈ سنہ2013 میں فلم ’آرگو‘ پر ملا جس میں انھوں نے اداکاری کے ساتھ ساتھ ہدایت کاری کے جوہر بھی دکھائے تھے۔


جینیفر گارنر کو بھی ٹی وی سیریز ’ایلیاس‘ میں سی آئی اے ایجنٹ کے کردار پر گولڈن گلوب ایوارڈ مل چکا ہے۔


اس فلمی جوڑے کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ طلاق کا فیصلہ دوستانہ ماحول میں کیا گیا ہے۔

ساہیوال: جی ٹی روڈ پر ٹرک اور وین کے درمیان تصادم کے نتیجے میں اداکارہ خوشبو کا بھائی اور بھتیجی جاں بحق ہوگئی جب کہ اداکارہ سمیت 7 افراد شدید زخمی ہوگئے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق ادکارہ خوشبو اپنے بھائی جاوید اوردیگر افراد سمیت سہون سے لاہورواپس آ رہی تھیں کہ ساہیوال کے قریب جی ٹی روڈ پر ان کی تیز رفتاروین ٹرک سے ٹکرا گئی جس کے نتیجے میں اداکارہ کے بھائی موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے جب کہ خوشبو سمیت 8 افراد زخمی ہوگئے، امدادی ٹیموں نے زخمیوں کو ڈی ایچ کیو اسپتال چیچپہ وطنی منتقل کیا جہاں ان کی بھتیجی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئی جب کہ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ خوشبو کے ہاتھ اور کمر پر چوٹیں آئی ہیں جنہیں انتہائی نگہداشت وارڈ میں لے جایا گیا تھا تاہم ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

زخمیوں کا کہنا ہے کہ ملتان میں سحری کے بعد وین میں سوارتمام افراد سوگئے کہ ساہیوال کے قریب موٹروے پر حادثہ پیش آیا جب کہ وین کا اگلا حصہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ان کے وکیل نے انتخابات میں منظم دھاندلی ثابت  کردی ہے۔

اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ان کے وکیل نے انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل کمیشن کے رو برو ثابت کردیا ہے کہ 2013 کے انتخابات میں منظم دھاندلی ہوئی،پنجاب میں ریٹرننگ افسران ان منظم دھاندلی کا حصہ تھے، مسلم لیگ (ن)، آر اوز اور الیکشن کمیشن مل کر میچ کھیلتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات میں ریٹرننگ افسران کو کھلا چھوڑا، جنہوں نے امیدواروں اور ان کے نمائندوں کو ووٹوں کی گنتی کے عمل میں شامل نہیں ہونے دیا اور انہوں نے خود ووٹوں کے تھیلے بھرے ، موجودہ الیکشن کمیشن کے سوا سارا کمیشن دھاندلی میں ملوث ہے، الیکشن کمیشن کی وجہ سے چور اور ڈاکوحکمران بن کرعوام پر مسلط ہوگئے۔

چیرمین تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ نادرا کو ووٹوں کی تصدیق کرنی تھی کیونکہ انہوں نے اس کا دعویٰ کیا تھا، پہلے نادرا کے چیرمین نے کہا کہ ان کے حلقے میں 93 ہزار ووٹوں کی شناخت نہیں ہوسکتی، اس کے بعد انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں 93 ہزار میں سے 98 فیصد ووٹ درست ہیں،یہ نادرا کا چیرمین ہے یا ولی اللہ، جنہیں سب باتوں کا پہلے سے ہی پتہ چل جاتا ہے، انہیں کیسے پتہ چلا کہ کون سا انگوٹھا ٹھیک ہے اور کون سا غلط۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں الیکشن کمیشن نے انتخابات میں آر اوز کو کھلی چھوٹ دی، پنجاب کے اکثر حلقوں کے پولنگ بیگز میں فارم 15 موجود ہی نہیں، جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات میں آر اوز کی پشت پر موجود لوگوں کا بھی پتہ چل جائے گا۔

اسلام آباد: وزیراعظم نواز شریف نے اعلان کیا ہے کہ رمضان المبارک کے دوران عوام پر کوئی بوجھ نہیں ڈالیں گے اس لئے عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود حکومت قیمتوں میں اضافہ نہیں کر رہی۔

اسلام آباد ایکسپریس وے سگنل فری منصوبے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ اوگرا کی جانب سے پیٹرول کی قیمت میں 4 روپے 26 پیسے اور ہائی اوکٹین کی قیمت میں 7 روپے 30 پیسے بڑھانے کی تجویز کی گئی تھی جسے مسترد کردیا گیا ہے اور عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود اس کی قیمت میں اضافہ نہیں کر رہی جس کے باعث حکومت کو ڈھائی ارب روپے کے خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

واضح رہے کہ اوگرا نے وزارت پیٹرولیم کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 7 روپے سے زائد اضافے کی تجویز پیش کی تھی جس کا اطلاق یکم جولائی سے ہونا تھا۔



پاکستانی آل راؤنڈر محمد حفیظ، جنھیں اپنے بولنگ ایکشن کے بائیو مکینک ٹیسٹ کےلیے منگل کے روز چینئی جانا تھا، ویزا نہ ملنے کے سبب بھارت روانہ نہیں ہو سکے۔


پاکستان کرکٹ بورڈ کے ترجمان کے مطابق محمد حفیظ کو ویزے کا انتظار ہے۔ امید ہے کہ منگل کی شام تک انھیں ویزا مل جائےگا اور وہ بدھ کی صبح چینئی روانہ ہوجائیں گے اور اسی روز چینئی کی لیبارٹری میں ان کے بولنگ ایکشن کا بائیو مکینک ٹیسٹ ہو گا جس کے بعد واپس سری لنکا چلے جائیں گے۔


پاکستان اور سری لنکا کے درمیان تیسرا اور آخری ٹیسٹ میچ تین جولائی سے پالیکیلے میں شروع ہو گا۔ لیکن بظاہر تیسرے ٹیسٹ میں حفیظ کی شرکت کا امکان کم دکھائی دے رہا ہے۔


محمد حفیظ کے بولنگ ایکشن کے قواعد و ضوابط کے خلاف ہونے کے بارے میں گال ٹیسٹ کے امپائروں نے رپورٹ دی تھی تاہم وہ کولمبومیں دوسرا ٹیسٹ کھیلے تھے۔


آئی سی سی کے قوانین کے مطابق اگر کوئی بولر سال میں دو مرتبہ مشکوک بولنگ ایکشن کی زد میں آ جائے تو وہ ایک سال تک بین الاقوامی کرکٹ میں بولنگ نہیں کر سکتا۔


محمد حفیظ کے بولنگ ایکشن کے مشکوک ہونے کے بارے میں پہلی رپورٹ گذشتہ سال نومبر میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان ابوظہبی میں کھیلے گئے ٹیسٹ کے امپائروں نے دی تھی۔


محمد حفیظ کے بائیو مکینک تجزیے کی رپورٹ 14 دن میں آئے گی اس دوران وہ بین الاقوامی کرکٹ میں بولنگ کر سکتے ہیں۔


اسقاط حمل پر مکمل پابندی والے یورپی کیتھولک ملک پولینڈ میں خواتین کو یہ سہولت فراہم کرنے کے لیے ایک غیر سرکاری ادارے نے ڈرون کا استعمال شروع کر دیا ہے۔

جرمن پولستانی فضائی سرحد پار کر کے پولینڈ پہنچنے والے ڈرون طیاروں کے نچلے حصے میں اسقاط حمل کو ممکن بنانے والی گولیوں کے پیکٹ نصب کیے گئے اور انہیں پولینڈ کے مغربی سرحدی شہر سلوبیس پہنچایا گیا۔ اس مہم کا مقصد پولستانی حکام کی توجہ اسقاط حمل پر پابندی سے متعلق قوانین کی طرف مبذول کرانا ہے۔ 

یہ پیش قدمی ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک غیر سرکاری ادارے ’ویمن آن ویوز‘ نے شروع کی ہے۔ اس مہم میں خواتین کے اسقاط حمل کے حق کی حمایت کرنے والے متعدد ڈاکٹر اور سماجی طور پر سرگرم عناصر شامل ہیں۔ اسقاط حمل کے لیے استعمال میں لائی جانے والے دوائی کو لے کر جانے والے اس ڈرون کو جرمنی سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ 

غیر سرکاری تنظیم ’ویمن آن ویوز‘ نے پہلی بار اسقاط حمل کی دوائی کے ساتھ دو خواتین کو بھی پولینڈ بھیجا ہے۔ اس ادارے سے منسلک ایک گائناکالوجسٹ گونیلا کلائی وردا نے بتایا کہ انہیں ابھی سے بتا دیا گیا ہے کہ ایسی ہی ایک مہم بہت جلد آئرلینڈ کے لیے بھی شروع کی جائے گی۔ اس کے علاوہ یوروگوائے اور برازیل کے لیے بھی اس مہم کو شروع کرنے پر بحث ہو رہی ہے۔ جرمن پولیس کی طرف سے پولینڈ کے شہر سلوبیس میں اس مہم کو ناکام بنانے کی کوشش کے باوجود یہ کامیاب رہی اور عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے اس امر کی تصدیق کر دی ہے کہ اسقاط حمل کی گولیاں پولینڈ کی خواتین تک پہنچ گئی ہیں۔ کیتھولک پولینڈ کا شمار یورپ کے اُن چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں اسقاط حمل وسیع تر حد تک ممنوع ہے۔ استثناء محض ایسے کیسز کو حاصل ہے جن میں حاملہ خاتون کے جنین میں کسی قسم کی بے ضابطگی یا نقص کی تشخیص ہو جائے یا حاملہ خاتون کی صحت اور زندگی کو خطرہ ہو۔ اس کے علاوہ اگر حمل کا سبب کسی عورت کے ساتھ کی جانے والی جنسی زیادتی یا زنائے محرم ہو تو بھی حاملہ عورت اسقاط حمل کروا سکتی ہے۔ 

اکثر ڈاکٹر ایسے کیسز میں بھی اسقاط حمل سے گریز کرتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے خلاف مقدمے یا پھر قانونی چارہ جوئی کا خوف ہوتا ہے۔ ’ویمن آن ویوز‘ کی امراض نسوانی کی ماہر، ڈاکٹر گونیلا کلائی وردا کے بقول ان کے پاس ایسے کیسز کے ثبوت موجود ہیں جن میں ڈاکٹروں نے اسقاط حمل کرنے سےانکار کر دیا۔ مثال کے طور پر جنسی زیادتی کے نتیجے میں حاملہ ہونے والی ایک چودہ سالہ لڑکی کی مدد کرنے سے ڈاکٹروں نے انکار کر دیا۔ ڈاکٹر گونیلا کلائی وردا کہتی ہیں، ’’ہم پولینڈ کا قانون تو نہیں بدل سکتے تاہم ہم اس طرف لوگوں کی توجہ دلا سکتے ہیں اور پھر یہ ان ملکوں کے باشندوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خود اس حوالے سے فعال ہو جائیں۔‘‘




امریکی ریاست کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والی خاتون کومل احمد نے ایک موبائل فون اپلی کیشن تیار کی ہے، جس کی مدد سے ہزاروں مستحق اور بے گھر افراد کو کھانا کھلایا جاتا ہے۔

پچیس سالہ کومل احمد ایک غیر منافع بخش کمپنی 'فیڈنگ فارورڈ' کی چیف ایگزیکٹو ہیں۔

ان کی کمپنی سان فرانسسکو شہر کے فوڈ بینک اور بے گھر افراد کی پناہ گاہوں کے ساتھ مل کر بچے ہوئے کھانے کی تقسیم کا منظم عمل چلا رہی ہے۔

کومل احمد نے آن لائن ویب سائٹ 'فوڈ بییسٹ' کو بتایا کہ 'یہ تین سال پہلے کی بات ہےجب میں وہ کیلی فورنیا یونیورسٹی بارکلے میں زیرتعلیم تھیں تو ایک روز یونیورسٹی کے کیمپس کے قریب ایک نوجوان شخص نے مجھے روکا اور مجھ سے کھانے کے لیے پیسے مانگے تھے۔

جس پر بہت اصرار کے بعد میں نے اس شخص کو اپنے ساتھ دوپہر کے کھانے کی دعوت دی اور دوران گفتگو انھیں معلوم ہوا کہ یہ ایک پڑھا لکھا نوجوان ہے جو حالات کی ستم ظریفی کی وجہ سے بے گھر ہو گیا ہے۔


اس کی کہانی سن کر مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ کوئی اتنا مجبور ہو سکتا ہے۔ بس اس واقعہ کے بعد میں نے یونیورسٹی میں ایک منصوبے کا آغاز کیا، جس پر مجھے یونیورسٹیی کی طرف سے ڈائننگ ہال سے بچا ہوا کھانا مقامی بے گھر افراد کو عطیہ کرنے کی اجازت مل گئی۔

ان کا یہ منصوبہ بہت کامیاب رہا اور تین سال کے اندر اندر امریکہ بھر کے140 دیگر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی اس منصوبے کا آغاز کر دیا گیا۔

بقول محترمہ احمد بھوک بہت بری چیز ہے یہ ہر جگہ خطرناک ہوتی ہے اور امریکہ جو ایک ترقی یافتہ اور خوشحال ملک ہے یہاں اس کا وجود نہیں ہونا چاہیئے۔

فیڈنگ فارورڈ اپلی کیشن کس طرح کام کرتی ہے


موبائل اپلی کیشن کا استعمال کرتے ہوئےخوردہ فروش کمپنیاں اور تقریبات کا انتظام کرنے والی تنظیمیں اپنا بچا ہوا کھانا اپنے ہی علاقے کے اندر ضرورت مند افراد کو عطیہ کر سکتی ہیں۔

فیڈنگ فارورڈ کمپنی ویب سائٹ اور فون ایپ کے ذریعے اضافی خوراک رکھنے والے کاروباری اداروں اور قریبی علاقوں میں ضرورت مندوں کو تلاش کرتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی کمپنی یا کاروباری ادارے کے پاس بچی ہوئی خوراک موجود ہے تو وہ اس فون ایپ پر کلک کر کے یہاں اپنے عطیہ کی تفصیلات درج کرتا ہے، جس کے بعد کمپنی کا ڈرائیور فوری طور پر بچے ہوئے کھانے کو وہاں سے اٹھاتا ہے اور سب سے ز یادہ ضرورت مند ادارے کے سپرد کرتا ہے۔

فیڈنگ فارورڈ اب تک سان فرانسسکو کے پسماندہ آبادی کی خدمت انجام دے رہی ہے لیکن محترمہ احمد بہت جلد اس تنظیم کو سییا ٹل اور بوسٹن تک وسعت دینے کا ارادہ رکھتی ہیں اور آخر کار عالمی سطح پر بھی اس کے دائرہ کار کو بڑھانا چاہتی ہیں۔

کومل احمد کے مطابق جیسےجیسے فیڈنگ فارورڈ کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے بڑی تعداد میں لوگ رضاکارانہ طور پر تنظیم کی مدد کے لیے آگے بڑھے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ 'یہ امریکہ کے بہت بڑے شہر ہیں جہاں ہر روز بڑے پیمانے پر خوراک کو ضایع کر دیا جاتا ہے ہم یہاں اپنے علاقے کو ایک مثال بنانا چاہتے ہیں اور یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر یہ نظام یہاں کام کر سکتا ہے تو دنیا کے کسی بھی حصے میں کام کر سکتا ہے'۔

عالمی سطح پر خوراک کا ضیاع

رواں برس اقوام متحدہ کی خوراک اور زراعت کی عالمی تنظیم کی طرف سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بچے ہوئے کھانے کے ساتھ مسائل صرف ترقی یافتہ ممالک تک محدود نہیں ہیں بلکہ یہ مسئلہ افریقی ممالک مثلاً جنوبی افریقہ میں بھی موجود ہے۔

رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں خوردہ فروشوں اور صارفین کی طرف سے ضایع خوراک 870ملین بھوکے افرادکو کھانا کھلانے کے لیے کافی سے زیادہ ہے جبکہ صرف امریکہ میں ہر سال 60 ملین میٹرک ٹن خوارک برباد کر دی جاتی ہے، جس کی اندازاً قیمت 162 ارب ڈالر ہے۔

بتایا گیا ہے کہ یہ مسئلہ آبادی میں اضافے کے ساتھ مزید بدتر ہو سکتا ہے اور2030ء تک جب عالمی سطح پر متوسط طبقے کی آبادی میں اضافہ ہو گا تو صارفین کے بچے ہوئے کھانوں کی لاگت اندازاً 600 ارب ڈالر تک جا پہنچ سکتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کھانے کا فضلہ نا صرف سماجی مسئلہ ہے بلکہ اقتصادی اور سنگین ماحولیاتی مسئلہ بن چکا ہے۔



اسلام آباد: وزیر اعظم نواز شریف سے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ملاقات کی ہے جس میں ملک کی داخلی سیکیورٹی صورتحال اور 'را' کی فنڈنگ کے حوالے سے بی بی سی کی حالیہ رپورٹ سمیت دیگر معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔


ذرائع نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ آرمی چیف نے شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ضرب عضب میں ہونے والی پیش رفت پر وزیر اعظم کو آگاہ کیا۔


ذرائع کا کہنا تھا کہ ملک کے مشرقی اور مغربی سرحدوں پر سیکیورٹی صورتحال بھی زیر گفتگو آئی۔


برطانوی نشریاتی ادارے کی ڈاکومینٹری کے حوالے سے ذرائع کا کہنا تھا کہ ملاقات میں بی بی سی رپورٹ اور پاکستان میں ہندوستان کی مداخلت سے متعلق انکشافات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔


خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے ایک ڈاکومینٹری نشر کی تھی، جس میں ایم کیو ایم پر ’را‘ سے فنڈنگ لینے اور کارکنوں کی ہندوستان سے تربیت کا الزام لگایا گیا تھا۔


رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ برطانیہ میں ایم کیو ایم کے رہنما کی رہائش گاہ سے منی لانڈرنگ کی رقم اور ہتھیاروں کی فہرستیں بھی حاصل ہوئی تھی۔


یاد رہے کہ برطانیہ میں ایم کیو ایم کے خلاف تحقیقات کا آغاز 2010 میں اس وقت کیا گیا جب سینئر پارٹی رہنما عمران فاروق کو ان کے گھر کے باہر قتل کر دیا گیا۔


اسی تحقیقات کے دوران تحقیقاتی حکام کو ایم کیو ایم کے لندن آفس اور الطاف حسین کے گھر سے 5 لاکھ پاؤنڈ بھی ملے تھے۔


اس کے بعد ایم کیو ایم کے خلاف ممکنہ منی لانڈرنگ کی تحقیقات بھی شروع کی گئی جو کہ ابھی بھی جاری ہیں۔


وزیر اعظم نواز شریف کی ہدایت پر برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کی تحقیقات بھی شروع کر دی گئی ہیں۔


دوسری جانب ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین ان الزامات کی تردید کر چکے ہیں۔


تین روز قبل سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر لندن پولیس کی چند مبینہ دستاویزات سامنے آئی تھیں جن میں متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما کی جانب سے ہندوستان کی خفیہ ایجنسی 'را' (ریسرچ اینڈ اینالسز ونگ) سے روابط کا اعتراف کیا گیا تھا۔


یہ دستاویزات متحدہ قومی موومنٹ کے ایک سینئر رہنما کے مبینہ طور پر لندن پولیس کو دیئے گئے بیان پر مشتمل تھیں۔


متعدد صفحات پر مشتمل ایجوئر پولیس کو دیے گئے مبینہ انٹرویو میں ایم کیو ایم رہنما طارق میر کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کو ہندوستانی حکومت کی حمایت حاصل تھی جبکہ پارٹی قائد الطاف حسین کو ہندوستان سے فنڈنگ ملتی تھی۔


اس واقعہ سے منسلک بعض قانونی پہلوؤں کو سمجھنے کے لیے ڈان نے سابق وزیر قانون اور سپریم کورٹ کے وکیل ڈاکٹر خالد رانجھا سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ تازہ ترین ’انکشافات‘ انہیں اندھیرے میں تیر چلانے کے مترداف معلوم ہوتے ہیں، اس لیے کہ اب تک کوئی ٹھوس ثبوت نہیں پیش کیا گیا ہے۔


ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ قانونی لحاظ سے بات کی جائے تو عدالت میں نامعلوم ذرائع کی بنیاد پر تیار کی گئی اسٹوری بالکل بھی معتبر نہیں ہوتی۔


خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پ ٹی آئی) کی جانب سے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے خلاف برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی ڈاکومینٹری میں لگنے والے الزامات کی تحقیقات کیلئے پنجاب اسمبلی میں متفقہ قرار داد منظور کی جا چکی ہے۔



امریکی سینیٹرز کی طرف سے پاکستانی حکام کو ایک خط لکھا گیا ہے، جس میں سینیٹرز نے ملالہ یوسفزئی پر قاتلانہ حملہ کے ذمہ دار افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے، تاکہ لڑکیوں کی تعلیم کی وکالت کے لیے عالمی امن کا نوبیل انعام جیتنے والی ملالہ یوسفزئی کو انصاف دلایا جا سکے۔


امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کی ایک ذیلی کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر مارکو روبیو اور رینکنگ رکن سینیٹر باربرا باکسر نے پیر کے روز امریکہ میں پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی کے نام ایک خط لکھا ہے، جس میں حکومت پاکستان سے ملالہ یوسفزئی کے مقدمے سے جڑے ہوئے تمام حقائق کو سامنے لانے کی درخواست کی ہے۔


سینیٹ کی خارجہ امور کی ذیلی کمیٹی کی ذمہ داریوں میں عالمی سطح پر اسمگلنگ، جدید غلامی، انسانی اسمگلنگ، عام شہریوں کی سلامتی، سرحد پار جرائم اور انسانی حقوق سمیت عالمی سطح پر خواتین کے حقوق جیسے مسائل شامل ہیں۔


خط کے متن میں سینیٹر مارکو روبیو اور سینیٹر باربرا باکسر کی جانب سے پاکستانی حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ ملالہ پر قاتلانہ حملے میں مبینہ طور پر ملوث، دس حملہ آوروں کے مقدمے کےحوالے سے ایک ایماندار اور شفاف رپورٹ امریکی حکام کو فراہم کی جائے۔


امریکہ میں پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی کو لکھےجانے والےخط میں سینیٹروں نے کہا کہ ہمیں ان دس افراد کے خلاف مقدمات میں عام معلومات کو خفیہ رکھےجانے کے حوالے سے مقدمے کی شفافیت کے بارے میں سنگین خدشات ہیں۔


گزشتہ اپریل میں پاکستانی حکام نے ایک اعلان کیا تھا کہ ایک خفیہ مقدمے کی سماعت کے بعد تمام دس ملزمان پر ملالہ کے قتل کا الزام ثابت ہو گیا ہے، اور مجرموں کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے 25 سال قید کی سزا سنائی تھی۔


ہمیں یہ سن کر حوصلہ ملا تھا کہ پاکستان کا عدالتی نظام گھناؤنے فعل کے ذمہ داروں کی گرفتاری کے لیے موثر خدمات انجام دے رہی ہے۔


امریکی ریاست فلوریڈا کے سینیٹر مارکو روبیو اور ریاست کیلی فورنیا کی سینیٹر باربرا باکسر کی طرف سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ ہم حالیہ ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کی طرف سے فکر مند رہے ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ مجرم قرار دیے جانے والے دس میں سے آٹھ افراد کو اصل الزامات سے بری کر دیا گیا ہے۔


انھوں نے مزید لکھا کہ ان رپورٹوں سے پاکستان کے عدالتی نظام کی شفافیت اور احتساب کے بارے میں اہم خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔


اسی تناظر میں امریکی سینیٹرز کی طرف سے پاکستانی حکومت سے درخواست کی گئی ہے، مقدمے سے متعلقہ حقائق اور ان دس مجرموں کے حوالے سے ایک ایماندار اور شفاف رپورٹ فراہم کی جائے اور ملالہ کے خلاف حملے کے ذمہ دار تمام لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی کوششوں کو جاری رکھا جائے۔


ملالہ یوسفزئی پر 2012ء میں خیبر پختونخواہ کے ضلع سوات میں اس وقت حملہ کیا گیا تھا جب وہ اسکول کی بس سے واپس اپنے گھر آرہی تھی، حملہ آوروں نے ملالہ کے سر پر گولی ماری تھی۔


اقدام قتل کے نتیجے میں لڑکیوں کے لیے تعلیم کا حق مانگنے والی پندرہ سالہ ملالہ یوسفزئی کی حمایت میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر زبردست اضافہ ہوا۔



جدّہ: مکہ المکرمہ میں رمضان المبارک کے دوران عمرے کی ادائیگی کے لیے آئے ہوئے عازمین کے لیے موٹر بائیک کی سواری بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے، اس لیے کہ ان موٹرسائیکل سواروں کو کرایہ ادا کرکے عازمین عمرہ شہر کے مرکزی علاقے سے مسجد الحرام تک باآسانی پہنچ جاتے ہیں۔


بہت سے عازمین عمرہ پبلک ٹرانسپورٹ میں بہت زیادہ رش ہونے کی وجہ سے موٹر سائیکل کو ترجیح دیتے ہیں۔


لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ موٹر سائیکل کے مالکان عازمین کی مجبوری سے فائدہ اُٹھاتے ہیں اور ان سے من مانی رقم وصول کرتے ہیں۔


عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق ناصرف ان کی جانب سے طلب کی جانے والی رقم بہت زیادہ ہوتی ہے، بلکہ یہ لاپرواہی کے ساتھ اور یکطرفہ سڑک پر غلط رُخ پر بھی موٹرسائیکل چلانے سے گریز نہیں کرتے۔


مکہ کے ٹریفک ڈائریکٹوریٹ نے خفیہ طور پر اپنے افسران کے ذریعے ان موٹرسائیکلوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن ان کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ ان کوششوں سے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے۔


ان موٹرسائیکلوں کے کرائے خاص طور پر رمضان المبارک کے آخری عشرے کے دوران فاصلے کے مقابلے میں کہیں انتہائی زیادہ ہوجاتے ہیں۔


آخری عشرے میں عازمین عمرہ کی بہت بڑی تعداد مکہ میں موجود ہوتی ہے اور بے انتہا رش ہونے کی وجہ سے یہ موٹرسائیکل سوار منہ مانگے کرائے وصول کرتے ہیں، پانچ کلومیٹر کے فاصلے کے لیے ان کاکرایہ 500 سعودی ریال یعنی تقریباً 13 ہزار 565 پاکستانی روپے کے برابر ہوسکتا ہے۔ جبکہ ہوائی جہاز کا ٹکٹ یہاں کم سے کم 300 ریال میں خریدا جاسکتا ہے۔


عرب نیوز نے عازمین عمرہ کو اپنی موٹر بائیک پر مسجد الحرام لانے اور لے جانے والے عمران الیزیدی سے بات کی، انہوں نے بتایا کہ انہیں اس عمرہ سیزن میں زبردست کمائی کا موقع ملتا ہے۔


انہوں نے کہا کہ وہ لوگوں کو مجبور نہیں کرتے، لوگ خود ان کے بتائے ہوئے کرائے پر اس پُرخطر سواری کے ذریعے مسجدالحرام تک جانا پسند کرتے ہیں۔



گزشتہ بدھ کے روز سیف الدین الرزقی اپنے آبائی شہر میں واقع ایک کیفے میں بیٹھا دوستوں کے ہمراہ اپنی پسندیدہ فٹبال ٹیم، لڑکیوں اور بریک ڈانس میں مہارت کے بارے میں گپ شپ لگا رہا تھا۔


یونیورسٹی میں ایم اے کی تعلیم کے دوران چھٹیوں پر آئے ہوئے سیف الدین نے جمعرات کے روز اپنے چچا سے ملاقات کی، جس میں خاندانی معاملات پر گفتگو ہوئی۔ اس کے ایک دن بعد وہ انتہائی سکون کے ساتھ ساحلی شہر سوسہ کے امپیریل مرحبا بیچ ہوٹل پہنچا اور وہاں کلاشنکوف سے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ تقریباﹰ پانچ منٹ میں یہ نوجوان جہادی گروپ داعش کے نام پر انتالیس غیرملکیوں کو ہلاک کر چکا تھا۔


ایک مرتبہ پھر تیونس اس صدمے میں تھا کہ کس طرح ایک عام اور نارمل زندگی گزارنے والا نوجوان اسلامک اسٹیٹ کے پرتشدد نظریات کو عملی جامہ پہنا چکا تھا، کتنے کم وقت میں مڈل کلاس کا ایک پڑھا لکھا نوجوان داعش کا حامی بن گیا تھا اور کتنی جلد ایک بریک ڈانسر، میوزک فین اور فٹبال کا دلدادہ لڑکا داعش کا جہادی عسکریت پسند بن چکا تھا۔ اس حملے کے دوران سیف الدین بھی ہلاک ہو گیا تھا۔


تیونس کے علاقے کعفور میں واقع ایک منزلہ گھر کے باہر سیف الدین الرزقی کے رشتہ اور ان سے اظہار تعزیت کرنے کے لیے آنے والے اہل خانہ کے دوست احباب جمع ہیں۔ پلاسٹک کی ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے اس کے چچا علی الرزقی کا کہنا تھا، ’’ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ وہ اس طرح کا دہشت گردانہ کام کرے گا۔ شاید اس کے خیالات وہاں تبدیل ہوئے ہوں، جہاں وہ تعلیم حاصل کر رہا تھا، شاید انٹرنیٹ پر اسے کسی نے متاثر کیا تھا، ہمارے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔‘‘


گندم کے کھیتوں اور زیتون کے درختوں کے درمیان واقع کعفور جیسے دیہی علاقوں میں نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع بہت کم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے علاقوں کے زیادہ تر نوجوان روزگار یا تعلیم کے لیے قریبی شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ سیف الدین کے دوستوں اور ہمسایوں کے مطابق وہ خوشگوار طبعیت والا ایک باتونی لڑکا تھا۔ اس نے کبھی بھی مذہب پر بات نہیں کی تھی۔ وہ گھر سے دور تعلیم حاصل کر رہا تھا لیکن زیادہ تر گھر واپس آ جاتا تھا۔


گزشتہ بدھ کو اس نے القیروان سے واپسی پر ایک کیفے میں اپنے دوستوں سے ملاقات کی، جہاں فٹبال اور گانے کے مقابلوں کے بارے میں گپ شپ ہوتی رہی۔ اس کے ایک دوست محمد کا کہنا تھا، ’’اس کی گفتگو سے بنیاد پرستی یا کسی دوسری چیز کا شائبہ تک نہیں ہوا۔ اس نے کبھی مذہب سے متعلق بات ہی نہیں کی تھی۔ یہ ایک دھچکے سے کم نہیں ہے کہ ایک دوست، جس کے ساتھ آپ نے طویل عرصہ گزارا ہو، یکدم قاتل بن جائے۔‘‘


تاہم سیف الدین نے وہی راستہ اختیار کیا، جو تیونس کے ہزاروں نوجوان اختیار کر چکے ہیں اور وہ ہے، عراق اور شام میں سرگرم عمل داعش میں شمولیت کا راستہ۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق تین ہزار سے زائد تیونسی شہری شام، عراق اور ہمسایہ ملک لیبیا میں جہاد کے لیے اپنا وطن چھوڑ چکے ہیں۔ حکام کے مطابق سیف الدین القیروان میں تعلیم حاصل کر رہا تھا اور وہاں ہی اس کے عسکریت پسندوں سے روابط قائم ہونے کا خدشہ ہے۔ اس شہر کی سب سے مشہور مسجد 2011ء کے انقلاب کے بعد سے انصار الشریعہ جیسی تنظیموں کے بنیاد پرستوں کا مرکز بنی ہوئی ہے۔


لیکن حکام کا کہنا ہے کہ سیف الدین دہشت گردی یا انتہا پسندی سے متعلق کسی بھی واچ لسٹ میں نہیں تھا۔ پولیس نے کبھی اس کی کوئی مشتبہ سرگرمی نوٹ نہیں کی تھی۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق یوں لگتا ہے کہ سیف الدین کا عسکریت پسندوں سے رابطہ گزشتہ چھ ماہ کے اندر اندر ہوا تھا۔ ایک سکیورٹی اہلکار کا کہنا تھا، ’’وہ انٹرنیٹ کے ذریعے تیونس سے باہر کہیں عسکریت پسندوں سے رابطے میں تھا۔‘‘ سکیورٹی ذرائع کے مطابق یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سیف الدین نے داعش سے متاثر ہو کر اکیلے ہی یہ اقدام اٹھایا ہو لیکن جیسا بھی ہے، اس نے اپنی خفیہ زندگی کو انتہائی راز داری میں رکھا ہوا تھا۔


سیف الدین کے ساتھ ایک گروپ میں بریک ڈانس کرنے والے اس کے دوست احمد کا کہنا ہے، ’’مجھے ابھی تک یقین نہیں آ رہا۔ میں جب بھی کلاشنکوف کے ساتھ اس کی تصویر دیکھتا ہوں تو میرے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ ہم ایک ساتھ کس طرح رہے؟‘‘


کوئٹہ : بلوچستان کے وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی رپورٹ کے بعد متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پر پابندی عائد کرے دہشت گرد تنظیم قرار دینا چاہیے۔

صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ایف سی (فرنٹیئر کور) مددگار سینٹر میں کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹینیٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ، آئی جی ایف سی اور آئی جی پولیس کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ ایم کیو ایم پر نہایت سنگین نوعیت کے الزامات ہیں، پاکستان توڑنے کی سازشیں صرف بلوچستان میں ہی نہیں کراچی میں بھی نظر آ رہی ہیں۔

سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی کو تحسین پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پولیس، ایف سی اور دیگر اداروں کی کارکردگی قابل تعریف ہے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل رواں ہفتے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے ایک ڈاکومینٹری رپورٹ پیش کی تھی، جس میں ایم کیو ایم پر ’را‘ سے فنڈنگ لینے اور کارکنوں کی تربیت کا الزام لگایا گیا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ برطانیہ میں ایم کیو ایم کے رہنما کی رہائش گاہ سے منی لانڈرنگ کی رقم اور ہتھیاروں کی فہرستیں بھی حاصل ہوئی تھی۔

یاد رہے کہ برطانیہ میں ایم کیو ایم کے خلاف تحقیقات کا آغاز 2010 میں اس وقت کیا گیا جب سینئر پارٹی رہنما عمران فاروق کو ان کے گھر کے باہر قتل کر دیا گیا۔

اسی تحقیقات کے دوران تحقیقاتی حکام کو ایم کیو ایم کے لندن آفس اور الطاف حسین کے گھر سے 5 لاکھ پاؤنڈ بھی ملے تھے۔

اس کے بعد ایم کیو ایم کے خلاف ممکنہ منی لانڈرنگ کی تحقیقات بھی شروع کی گئی جو کہ ابھی بھی جاری ہیں۔

واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے قائد الطاف حسین نے دو ماہ قبل اپنے خطاب میں ہندوستان کی خفیہ ایجنسی 'را' سے مدد کرنے جبکہ پاک فوج پر تنقید کی تھی،اس بیان کے بعد بلوچستان اسمبلی سے ایم کیو ایم کے سربراہ کے خلاف قراردار بھی منظور کی تھی تاہم بعد میں الطاف حسین نے اپنے بیان پر معافی بھی مانگ لی۔



لاہور: لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے زین قتل کیس میں سابق وزیر مملکت صدیق کانجو کے بیٹے مصطفی کانجو سمیت 7 ملزمان پر فرد جرم عائد کردی ہے۔


یاد رہے کہ گاڑی کی ٹکر کے تنازع پر لاہور کے کیولری گراؤنڈ میں 16 سالہ طالب علم زین کو قتل کرنے کے الزام میں سابق وزیر مملکت صدیق کانجو کے بیٹے مصطفیٰ کانجو کو خوشاب سے گرفتار کیا گیا تھا۔


منگل کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر ایک کے جج محد قاسم نے زین قتل کیس کی سماعت کی۔


دلائل سننے کے بعد عدالت نے مرکزی ملزم مصطفٰی کانجو اور کے گارڈز آصف الرحمان، سکندر، جاوید، سعد اللہ، اکرام اللہ اور شہزاد اقبال پر فرد جرم عائد کردی تاہم ملزمان نے صحت جرم سے انکار کردیا۔


عدالت نے شہادتیں ریکارڈ کروانے کے لیے گواہان کو 7 جولائی کو طلب کرلیا ہے۔


پولیس کی جانب سے عدالت میں جمع کروائے جانے والے چالان میں کہا گیا ہے کہ ملزم نے اپنی کلاشنکوف سے طالب علم کا قتل کیا ۔


پولیس کے مطابق ریمانڈ کے دوران ملزم نے اعتراف جرم کرتے ہوئے بتایا کہ وہ کسی قتل کرنے کی نیت سے نہیں آیا تھا اور نہ ہی زین اس کا ٹارگٹ تھا اس نے مشتعل ہو کر فائرنگ کی، جس کا نشانہ زین بن گیا۔


تفتیشی افسر کے مطابق واردات میں استعمال ہونے والی کلاشنکوف پر ملزم مصطفی کانجو کے فنگر پرنٹس ملے ہیں۔


خیال رہے کہ مصطفیٰ کانجو کے والد صدیق کانجو سابق مملکت برائے امور خارجہ رہ چکے ہیں۔


مصطفیٰ کانجو کی گرفتاری پر مقتول زین کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس طرح زین واپس نہیں آسکتا لیکن حکومت کو وی آئی پی کلچر پر لگام ڈالنے کی ضرورت ہے تاکہ زین جیسے مزید معصوم نوجوان اپنی جانوں سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔



گزشتہ دنوں بنگلہ دیش نے اپنی سرزمین پرمہمان ٹیم ہندوستان کو 1-2 سے شکست دے کر پہلی مرتبہ انڈیا کے خلاف کوئی سیریز جیتی۔


وہ واقعہ تو سب کو ہی یاد ہوگا، جب انڈین کرکٹ ٹیم کے کپتان مہیندرا سنگھ دھونی بنگلہ دیش کے خلاف پہلے ایک روزہ میچ میں شکست کے ساتھ ساتھ میزبان ٹیم کے باؤلر کو دھکا دینے پر دہری تنقید کا نشانہ بنے۔


308 رنز کے تعاقب میں جب ہندوستان کی چار وکٹیں 115 رنز گر چکی تھیں تو اپنے ٹھنڈے مزاج کی وجہ سے مشہور انڈین کرکٹ ٹیم کے کپتان ایم ایس دھونی شدید پریشان ہو گئے اور اس بات اظہار انہوں نے بنگلہ دیش کی جانب سے پہلا میچ کھیلنے والے باؤلر مستفیض الرحمٰن کے اوور میں کر دیا۔


25 ویں اوور میں پیش آنے والے اس واقعے میں دھونی نے سنگل مکمل کرتے ہوئے پچ پر موجود نوجوان باؤلر کی طرف قدم بڑھا کر ان کو کندھے سے زور دار دھکا دیا، جس سے گھبرائے ہوئے مستفیض لڑکھڑا گئے اور دھکے کی شدت سے انہیں چوٹ آئی، جس کے بعد وہ اوور مکمل کیے بغیر ہی میدان سے چلے گئے۔


واضح رہے بنگلہ دیش کے شہر میرپور میں کھیلے گئے پہلے ایک روزہ میچ میں ہندوستان کو 79 رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا، تاہم تین ایک روزہ میچوں کی سیریز کے آخری میچ میں ہندوستان، بنگلہ دیش کو 77 رنز سے شکست دے کر وائٹ واش سے بچ گیا۔


اپنی فتح کی خوشی پر اور شاید دھونی کی حرکت کا بدلہ لینے کے لیے گزشتہ روز یعنی 29 جون کو بنگلہ دیش کے ایک مشہور اخبار 'پروتھوم آلو' کے ویکلی سپلیمنٹ 'روش آلو' میں ایک طنزیہ جعلی اشتہار شائع کیا گیا ۔


اشتہار میں بنگلہ دیشی کھلاڑی مستفیز الرحمٰن کو ایک "کٹر" کے ساتھ دکھایا گیا گیا ہے اور ساتھ میں تحریر ہے: "ٹائیگر اسٹیشنری—بنگلہ دیش کا بنایا ہو مستفیض کٹر، ڈھاکا کے میر پور اسٹیڈیم مارکیٹ میں دستیاب ہے"۔


جبکہ اشتہار کے نچلے حصے میں ہنوستان کے 7 کھلاڑیوں (اجینکیا راہانے، روہت شرما، ویرات کوہلی، راوندرا جدیجا، مہیندرا سنگھ دھونی، شیکھر دھاوان، اور روی چندرن آشون) کی تصاویر موجود ہیں جن کے سر آدھے منڈھے ہوئے ہیں، جبکہ ساتھ میں یہ الفاظ درج ہیں: "ہم اسے (کٹر کو) استعمال کر چکے ہیں، آپ بھی اسے استعمال کرسکتے ہیں"۔


بنگلہ دیشی اخبار میں شائع ہونے والے اس اشتہار کو ہندوستانی میڈیا پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔



رواں ماہ جب اسرائیلی حکام نے شہری دفاع کی ایک بہت بڑی مشق کی تو انھوں نے وہ سب کچھ کِیا جو اسرائیل کسی بھی حقیقی جنگ کی صورت میں کرے گا۔ بڑے شہروں کے مرکزی چوراہوں اور سڑکوں پر فضائی حملے والے سائرن بجائے گئے اور خطے کی گھنٹی بجتے ہی سکولوں میں اساتذہ نے پہلے سے تربیت یافتہ بچوں کو بڑی مستعدی کے ساتھ کمروں سے باہر نکالنا شروع کر دیا۔


ریڈیو پر چلائے جانے والی مختصر دورانیے کی خبروں میں یہ بات بھی چُھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی کہ اسرائیل پر یہ حملہ کِیا کس نے ہے۔ یہ اچانک حملہ حزب اللہ کے فوجیوں نے کیا تھا، وہی حزب اللہ کی فوج جسے ایران نے اسلحہ فراہم کر کے شمالی لبنان میں بٹھایا ہوا ہے۔


ہو سکتا کہ شہری دفاع کی یہ مشقیں اسرائیل میں معمول کی بات ہوں، لیکن یہ مشقیں ایک ایسے وقت کی گئی ہیں جب امریکہ کی قیادت میں دنیا کی بڑی طاقتیں ایران کے ساتھ ایک ایسے سفارتی معاہدے کے حتمی مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں جس میں ایران کے جوہری پروگرام کے قابل تصدیق معائنے کے بدلے میں اس پر لگی شدید اقتصادی پابندیوں میں نرمی کی پیشکش کی جا رہی ہے۔


اسرائیلی رہنماؤں کو فکر ہے جتنا ایران کو وہ ’جانتے‘ ہیں یہ بڑی طاقتیں نہیں جانتیں۔


اسرائیل بڑی سختی سے اس بات پر ڈٹا ہوا ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے ہر صورت روکا جائےاور اسرائیل کو کوئی شک نہیں کہ مشرق وسطی اور شاید پوری دنیا کو جس سب سے بڑے خطرے کا سامنا ہے اس کا نام ایران ہے۔
اسرائیلی دماغ کیا سوچتا ہے


اسرائیل کے اس خوف کی وجوہات بے شمار ہیں کہ امریکی قیادت میں کام کرنے والی بڑی طاقتوں کو ایران سے اتنا خوف کیوں محسوس نہیں ہوتا جتنا ہونا چاہیے۔


اسرائیل کو خطرہ ہے کہ یورپ نے یہ بات بڑی جلدی قبول کر لی ہے کہ ایران میں سخت گیر صدر محمود احمدی نژاد کی جگہ قدرے نرم مزاج حسن روحانی کا صدر بن جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ ایران میں واقعی کوئی سیاسی تبدیلی آ گئی ہے۔ اسرائیل کے خیال میں یہ کوئی جوہری تبدیلی نہیں بلکہ ایران کی اس سیاسی لیپا پوتی کا مقصد محض دنیا کو بے وقوف بنانا ہے۔


اسرائیل کے رہنماؤں کو خدشہ ہے کہ کہیں یورپ ایران میں اس خیالی سیاسی تبدیلی کو اصل تبدیلی سمجھتے ہوئے ایران سے کوئی جوہری معاہدہ نہ کر بیٹھے۔


اور دوسری جانب اسرائیل کو یہ خطرہ بھی ہے کہ کہیں صدر اوباما بین الاقوامی سطح پر اپنی اچھی یادیں چھوڑنے کے چکر میں یہ امید نہ لگا بیٹھیں کہ وہ انقلابی ایران کو درست سمت پر ڈال سکتے ہیں۔


یہ خدشات اپنی جگہ، لیکن اسرائیل کو جس خوف کا فوری سامنا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایران جوہری بم حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کا پہلا نشانہ اسرائیل ہی ہوگا۔


یہاں یہ ذکر کرنا غلط نہ ہوگا کہ ایران اس بات سے بالکل واضح انکار کرتا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار حاصل کر رہا ہے بلکہ اس کا اصرار ہے کہ اس کے یورینئم کی افزودگی کے منصوبے کے مقاصد پرامن ہیں اور وہ افزودہ یورینئم سے محض بجلی پیدا کرے گا یا اسے کینسر کے علاج کے لیے استعمال کرے گا۔


اسرائیل کے دفاعی اور انٹیلیجنس امور کے بہترین تجـزیہ کاروں کے سردار رونن برگمین کے بقول اس بات کا اندازہ کرنا بہت آسان ہے کہ عام اسرائیلیوں کے دلوں میں اپنی بقا کا خوف کتنا گہرا اور حقیقی ہے۔


ان کے بقول ’جب بھی ایران اور اسرائیل کے درمیان تناؤ بڑھ جاتا تھا لوگ ہر روز بلکہ ہر گھنٹے مجھے گلیوں میں روک لیتے ہیں اور یہی پوچھتے ہیں کہ اگر ایران کے پاس جوہری ہتھیار ہیں تواحمدی نژاد کب ’سرخ بٹن‘ دبا دیں گے۔‘


’میں نہیں سمجھتا کہ احمدی نژاد ایسا کرتے لیکن اسرائیل میں لوگوں کا ذہن یہی کہتا ہے کہ جیسے ہی ایران کے پاس کوئی جوہری ہتھیار آ گیا وہ فوراً اسے اسرائیل پر داغ دے گا۔‘
’پکا دشمن‘


ایران اور بڑی طاقتوں کے درمیان مذاکرات میں اسرائیل کوئی فریق نہیں ہے لیکن وہ امریکہ اور یورپ کو ایران کے خلاف سخت موقف اختیار کرانے کے لیے پسِ پردہ سرتوڑ کوششیں کرتا رہا ہے۔


اسی طرح اسرائیل کے خفیہ ادارے موساد کے ایک ریٹائرڈ افسر نے ہمیں بتایا کہ ان کے ادارے کا زیادہ وقت اور توانائی ایران پر صرف ہوتی ہے۔ اور اس توانائی اور وقت میں وہ توانائی اور وقت شامل نہیں ہے جو اسرائیلی خفیہ ایجنسی اسرائیل کے حزب اللہ اور حماس جیسے ان دشمنوں پر صرف کرتی ہے جنھیں ایران کی پشت پناہی حاصل ہے۔


اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل ایران کو ایک دشمن تصور کرتا ہے جس کے پاس جذبہ ہے، توانائی ہے اور وہ خطرناک بھی ہے اور سب سے بڑھ کر ایک ایسا دشمن جسے روکا نہیں جا سکتا۔


اسرائیل کے خفہ اداروں کے سابق وزیر ڈین مریڈور سمجھتے ہیں کہ ایران کے خلاف اقتصادیاں پابندیوں کے کارگر ہونے کی واحد وجہ یہی ہے کہ ایران بین الاقوامی سطح پر کوئی تجارت نہیں کر سکتا اور نہ ہی بین الاقوامی بینکوں کے راستے ملک سے پیسہ باہر بھیج سکتا ہے یا وصول کر سکتا ہے۔


ایران کا ہدف یہ ہے کہ وہ کسی طرح ان پابندیوں میں نرمی کروا لے، لیکن مسٹر میڈور کہتے ہیں کہ امریکہ اور دیگر بڑی طاقتوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان پابندیوں میں نرمی بڑی سوچ سمجھ کے ساتھ کرنا ہوگی۔


’ایرانی اس معاملے میں بڑے سنجیدہ ہیں اور چالاک بھی۔ لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ جرمنوں کی طرح اپنے مطلب کی سیاست کرنا جانتے ہیں۔‘
حملے سے پہلے جوابی حملہ؟


مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے دشمنوں کی اکثریت کو اسرائیلی نکتہ نظر سے منافقت کی بو آتی ہے۔ خطے کے کسی ملک کو بھی یہ شک نہیں کہ اسرائیل کئی برس پہلے جوہری ہتھیار حاصل کر چکا ہے، اسی لیے کوئی بھی ملک اتنا بے وقوف نہیں کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے سوال پر اسرائیل کی خاموشی پر اعتبار کر لے۔


لیکن اسرائیل کہتا ہے کہ ایران کا معاملہ اسرائیل سے مختلف ہے۔


کئی اسرائیلیوں کو یقین ہے کہ ایران کے مذہبی پیشوا ’بم‘ اسی لیے بنانا چاہتے ہیں کہ وہ اسرائیل کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیں۔ دیگر اسرائیلیوں کو خوف ہے کہ ایران ایک ایسی علاقائی طاقت بننا چاہتا ہے کہ کسی دوسرے ملک کے پاس یہ جرات نہ رہے کہ وہ ایران کے ساتھ کسی قسم کی دھکم پیل کر سکے۔


ایک انقلابی طاقت کے ناطے ایران سمجھتا ہے کہ وہ اپنا انقلاب خطے کے دوسرے ممالک کو برآمد کر سکتا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ اسے انقلاب کا پھیلاؤ نہیں بلکہ دہشتگردی کا پھیلاؤ سمجھتے ہیں۔


شیعہ اسلام کی دنیا میں ایک بڑی طاقت ہونے کے حوالے سے ایران سمجھتا ہے کہ اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ لبنان، عراق، شام اور یمن سمیت پورے مشرق وسطیٰ کی شیعہ برادریوں کو مسلح کرے اور ان کا دفاع کرے۔


جو ڈراؤنا خواب اسرائیل کی نیندیں اڑا رہا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایران کے ہاتھ جوہری ہتھیار آ جاتے ہیں تو وہ ایک نئے اعتماد کے ساتھ خطے میں اپنا اثر رسوخ بڑھانا شروع کر دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ کئی برسوں تک یہ خبر گردش کرتی رہی ہے کہ ایران کی جانب سے کسی ممکنہ حملے سے پہلے ہی اسرائیل ایران کے جوہری اثاثے تباہ کر دے گا۔


گذشتہ دو برسوں سے یہ خبر سرد پڑ گئی تھی اور بظاہر اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل ایران پر نئی پابندیوں کو کچھ وقت دینا چاہتا تھا۔


لیکن اسرائیلی انٹیلیجنس امور کے ماہر رونن برگمین کہتے ہیں کہ ایرانی تنصیبات پر حملہ بدستور اسرائیل کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔


یاد رہے کہ اسرائیل سنہ 1981 میں عراق اور پھر سنہ 2007 میں شام کی جوہری تنبصیبات پر فضائی حملہ کر چکا ہے اور اسرائیل کے سابق وزیر اعظم نے صاف کہہ رکھا تھا کہ اسرائیل اپنے کسی ایسے دشمن کی جوہری تنصیبات سلامت نہیں چھوڑے گا جو اسرائیل کی تباہی پر تُلا بیٹھا ہو۔


مسٹر برگمین کے بقول ’ یہی وہ وجہ ہے کہ اگر اسرائیلی وزیر اعظم کو اطلاع ملتی ہے کہ ایران بم بنانے کے قریب پہنچ گیا تو وہ اپنے بمباروں کو حکم دے دیں کے وہ جا کر ایران کی جوہری تنصیبات تباہ کر دیں۔
بُرے وقت کی تیاری


اگر ایران پر اس قسم کا کوئی حملہ کیا جاتا ہے تو ایران اس کا فوری جواب دے گا۔ اس کے لیے یا تو وہ براہ راست اسرائیل پر میزائلوں سے حملہ کر دے گا اور یا باالواسطہ حزب اللہ کو اسرائیل کی شمالی سرحد پر حملے کے لیے استعمال کرے گا۔


اس ماہ اسرائیل میں کی جانے والی شہری دفاع کی مشقوں کا مقصد ملک کو ایسی ہی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار کرنا تھا۔


خیالی حملے سے بچاؤ کی مشقیں اپنی جگہ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ فی الحال اسرائیل کا انحصار اسی بات پر ہے کہ امریکی مذاکرات کار یہ یقینی بنائیں کہ ایران کی جانب سے اسرائیل پر حملہ ایک خواب ہی رہے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو، لیکن ایران کے ساتھ معاہدے کا وقت اتنا قریب آ جانے کے بعد بھی اسرائیلیوں کا خوف اور شکوک ختم نہیں ہوئے۔



جاپان میں ایک شخص کی جانب سے بلٹ ٹرین پر خودسوزی کی کوشش کے نتیجے میں بھڑکنے والی آگ سے دو افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے ہیں۔


جاپانی محکمۂ ریل کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ خودسوزی کا واقعہ منگل کو شنکانسن نامی بلٹ ٹرین پر پیش آیا جب پہلی ہی بوگی کے ایک مسافر نے خود پر تیل چھڑک کر آگ لگا لی۔


حکام نے اس کی وجوہات نہیں بتائیں جبکہ وہ اس معاملے کو خودکشی کے زمرے میں دیکھ رہے ہیں۔


ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے 11 بجے اوداوارا نامی شہر کے قریب رونما ہوا۔


ان کے مطابق مذکورہ ٹرین ٹوکیو سے اوساکا جا رہی تھی اسے فوری طور پر روکنا پڑا۔


جاپان میں مقامی ٹی وی چینلوں پر نشر کی جانے والی فوٹیج میں ٹرین کی بوگی سے دھواں اٹھتا دیکھا جا سکتا تھا۔


سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق خودسوزی کرنے والا شخص ہلاک ہو گیا ہے جبکہ ایک خاتون مسافر کی لاش بھی اسی بوگی سے ملی ہے۔


حکام کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں کم از کم چھ افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جن میں سے دو کی حالت تشویش ناک ہے۔


اوداوارا میں آگ بجھانے کے محکمے کا کہنا ہے کہ مسافروں میں سے دو کو یہ واقعہ دیکھ کر دل کا دورہ پڑا جس کے بعد انھیں طبی امداد دی گئی۔


ٹوکیو سے بی بی سی کے نمائندے روپرٹ ونگفیلڈ ہیز کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ جاپانیوں کے لیے شدید صدمے کا باعث ہو سکتا ہے۔ یہ انتہائی محفوظ ملک ہے اور جاپان کی بلٹ ٹرین دنیا کی محفوظ ترین ٹرینوں میں شمار ہوتی ہیں۔


50 سال کی اپنی خدمات کے دوران ابھی تک اس میں کسی ہلاکت کا کوئی داغ نہیں ہے۔


انھوں نے مزید کہا کہ افسوس ناک طور پر نوجوانوں میں بطور خاص خودکشی کا رجحان غیر مانوس نہیں ہے۔ گذشتہ سال یہ ملک خودکشی کی شرح کے معاملے میں دنیا میں سرفہرست تھا۔


کیوڈو نیوز ایجنسی نے ٹرانسپورٹ اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ ڈرائیور نے آگ بجھانے کی کوشش کی تھی۔


جاپان میں بلٹ ٹرینیں 320 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتی ہیں اور ان کا حفاظتی ریکارڈ بہت اچھا ہے۔



سری لنکا کے خلاف جاری ٹیسٹ سیریز میں اب تک دو ٹیسٹ میچوں میں 15 وکٹیں حاصل کرنے والے پاکستانی لیگ سپنر یاسر شاہ آئی سی سی کی درجہ بندی میں دس بہترین بولرز میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔


2014 میں اپنے ٹیسٹ کریئر کا آغاز کرنے والے 29 سالہ یاسر شاہ نے ابھی تک صرف نو ٹیسٹ میچ ہی کھیلے ہیں تاہم انھوں نے ان میچوں میں 54 وکٹیں حاصل کی ہیں۔


وہ سب سے کم ٹیسٹ میچوں میں 50 وکٹیں مکمل کرنے والے پاکستانی بولر بھی ہیں۔


صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر صوابی سے تعلق رکھنے والے یاسر شاہ اس وقت آئی سی سی کے بہترین ٹیسٹ بولروں کی فہرست میں 750 پوائنٹس کے ساتھ نویں نمبر پر ہیں۔


یہ ان کے کریئر کی بہترین ریٹنگ ہے اور وہ اس فہرست میں گال میں سری لنکا کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ میں شاندار کارکردگی کے بعد شامل ہوئے ہیں۔


اس ٹیسٹ میں یاسر شاہ نے اپنے کیریئر کی بہترین بولنگ کرتے ہوئے 90 رنز دے کر سات کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا اور پاکستان کی جیت میں اہم کردار ادا کیا تھا۔


انھوں نے کولمبو میں دوسرے ٹیسٹ میں بھی آٹھ وکٹیں لیں لیکن ٹیم کو فتح یاب نہ کروا سکے۔


یاسر نے اپنا پہلا ٹیسٹ میچ اکتوبر 2014 میں آسٹریلیا کے خلاف دبئی میں کھیلا تھا۔


اس ٹیسٹ میچ میں ان کی بولنگ دیکھ کر شہرۂ آفاق آسٹریلوی لیگ سپنر شین وارن نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں ان کی صلاحیتوں کی زبردست تعریف کی تھی۔


یاسر ابتدائی دس ٹیسٹ بولروں میں شامل واحد پاکستانی ہیں اور یاسر کے بعد اس فہرست میں پاکستانی آف سپنر سعید اجمل کا نام ہے جو اس وقت 12ویں نمبر پر ہیں۔


خیال رہے سعید اجمل مشکوک بولنگ ایکشن کی وجہ سے چھ ماہ سے زیادہ عرصے تک انٹرنیشنل کرکٹ سے دور رہے اور ایکشن کے درستگی کے بعد بھی وہ پاکستان کے لیے کوئی ٹیسٹ میچ نہیں کھیلے ہیں۔



افغانستان میں کام کرنے والے ایک سینیئر امریکی فوجی کمانڈر کا کہنا ہے کہ افغانستان میں دولت اسلامیہ سے منسلک جنگجو شام میں اس شدت پسند تنظیم کی قیادت سے رابطے میں ہیں۔


افغان سپیشل فورس کو تربیت دینے والی ایک اکائی کے سربراہ جنرل شان سوئنڈل نے کہا کہ غیر مطمئن طالبان جنگجوؤں نے ایک ’فرینچائز‘ قائم کر لی ہے۔


تاہم انھوں نے کہا کہ دولت اسلامیہ افغانستان میں اس قدر سنجیدہ نہیں ہے جس قدر وہ لیبیا یا عراق میں ہے۔


حالیہ ہفتوں کے دوران مشرقی افغانستان میں نئے گروپ اور طالبان کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئی ہیں۔


طرفین نے اتحاد کی اپیل کو مسترد کر دیا اور جنگ ننگرہار صوبے کے کئی اضلاع میں پھیل گئی جو کہ تورا بورا کے غاروں والے علاقے سے زیادہ دور نہیں جہاں کبھی القاعدہ کے سابق رہنما اسامہ بن لادن چھپے تھے۔


دولت اسلامیہ کے اہم گروپ سے منسلک ویب سائٹ کے بعض حصے اب مکمل طور پر ’خراسان میں دولت اسلامیہ‘ کے لیے مخصوص ہیں۔ خیال رہے کہ خراسان افغانستان اور اس سے ملحقہ علاقوں کا پرانا نام ہے۔


اسی ویب سائٹ پر ایک حالیہ بیان میں طالبان جنگجوؤں کو دولت اسلامیہ میں شامل نہ ہونے کی صورت میں موت کی دھمکی دی گئی ہے۔


اس پوسٹ میں کہا گیا ہے: ’آپ دولت اسلامیہ سے جنگ کیوں کر رہے ہیں؟ کیا آپ اپنی قبر خود کھودنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا سر تن سے جدا کیا جائے اور آپ کے گھر تباہ کر دیے جائیں۔ کیا آپ کو یہ گمان ہے کہ آپ عراقی ملیشیا سے زیادہ طاقت ور ہیں جن کی پشت پر امریکہ کھڑا ہوا تھا؟‘


بظاہر یہ پوسٹ طالبان کی براہ راست اتحاد کی اپیل کا منھ توڑ جواب ہے۔


طالبان نے دولت اسلامیہ کے رہنما ابوبکر البغدادی کے نام ایک بیان میں کہا تھا کہ افغانستان کی جنگ میں ’دو پر چم‘ نہیں لہرا سکتے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ اس سے ’مجاہدین کی قوت منقسم ہو کر رہ جائے گی۔‘


لیکن اس کے برعکس ننگرہار کے معرکے میں دولت اسلامیہ کے حامیوں کو طالبان کے رہنما ملا محمد عمر کو قتل کرنے کے لیے لوگوں پر زور دیتے ہوئے دیکھا گيا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب ایک خلیفہ بغدادی ہے ہی تو دوسرے کی ضرورت کیا!


’خراسان میں دولت اسلامیہ‘ کی پہلی علامت پاکستان کے سرحدی علاقے میں جنوری میں نمودار ہوئی تھی۔


کئی سابق طالبان جنگجو جن میں ایک افغان کمانڈر بھی شامل تھے انھوں نے نئے گروپ سے اعانت کا عہد کیا تھا۔


اب دولت اسلامیہ کی دھمکیوں کے شواہد کے طور پر طالبان جنگجوؤں کی سر قلم شدہ اور گولی ماری ہوئی تصاویر افغانستان اور پاکستان میں سوشل میڈیا پر نظر آ رہی ہیں۔


یہ نئی معرکہ آرائیاں افغان فورسز کے لیے پیچیدہ سکیورٹی چیلنجز ہوں گی کیونکہ انھیں پہلی بار زمین پر بغیر بین الاقوامی فوجیوں کے تعاون کے گرمیوں کی جنگ سے سابقہ ہوگا۔


جنرل سوئنڈل نے کہا کہ افغان کی سپیشل فورس ہر ہفتے تقریبا 130 چھاپے مار رہی ہے جن میں سے معدودے چند میں ہی بین الاقوامی فوجیوں کا تعاون حاصل تھا اور وہ بھی منصوبہ بندی اور کنٹرول روم تک محدود تھا۔


جنرل سوئنڈل نے کہا کہ مغربی صوبہ فراہ بھی اس نئی تحریک کے خطرے سے دوچار ہے۔ وہ لوگ طالبان کے ساتھ وسائل کے لیے مقابلے میں ہیں۔


اس نئی تحریک نے افغانستان کے شہریوں کو نئی پریشانیوں میں ڈال دیا ہے اور ننگرہار کی جنگ سے بچنے کے لیے ہزاروں لوگ اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔


خیال رہے کہ رواں سال ملک میں اب تک چار ہزار سے زیادہ افراد ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔




انڈونیشیا میں فوجی حکام کا کہنا ہے کہ ایک مال بردار فوجی طیارہ شمالی سماٹرا میں شہری علاقے میں گر کر تباہ ہوگیا ہے۔


اس حادثے میں اب تک پانچ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے تاہم اس تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔


حکام کے مطابق یہ حادثہ منگل کو مدان نامی شہر میں پیش آیا جہاں چار انجن والا ہرکیولیس طیارہ آباد رہائشی آبادی پر گر گیا۔


فوج کے ایک ترجمان فواد باسیا نے کہا ہے کہ طیارہ دوپہر بارہ بج کر آٹھ منٹ پر فضائیہ کے اڈے سے اڑا تھا اور دو منٹ بعد ہی پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر شہر میں گر کر تباہ ہوگیا۔


مقامی ٹی وی چینلز کے مطابق طیارہ دو مکانات اور ایک کار پر گرا اور اس میں آگ لگ گئی۔


فوجی ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ طیارے پر عملے کے کم از کم 12 افراد سوار تھے اور اب تک پانچ لاشیں نکال لی گئی ہیں۔


ان کا کہنا تھا کہ تاحال یہ واضح نہیں کہ اس حادثے میں کتنے افراد ہلاک ہوئے ہیں اور آیا زمین پر بھی کوئی شخص اس حادثے میں مرا ہے یا نہیں۔


حادثے کے بعد جائے وقوع پر امدادی کارروائیاں شروع کر دی گئیں لیکن شدید آگ اور دھوئیں کی وجہ سے امدادی کارکنوں کو مشکلات درپیش ہیں۔


انڈونیشیا میں ماضی میں بھی فوجی مال بردار طیاروں کے گرنے کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔


سنہ 2009 میں جکارتہ سے مشرقی جاوا جانے والے سی 130 ہرکیولیس طیارے کے حادثے میں 97 افراد ہلاک ہوئے تھے۔


انڈونیشیا کی فضائیہ ماضی میں کہتی رہی ہے کہ فنڈز کی کمی کی وجہ سے اسے بہت مشکلات کا سامنا رہا ہے۔

یونان کے وزیرِ اعظم ایلکسس تسیپراس نے یونانی عوام پر زور دیا ہے کہ وہ ریفرینڈم میں ملک کے عالمی قرض خواہوں کی جانب سے مزید کفایت شعاری کی تجاویز کو مسترد کر دیں۔

یونان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے رکھی گئیں شرائط تسلیم کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں ملک میں پانچ جولائی کو ریفرینڈم منعقد ہو رہا ہے۔

یونانی وزیرِ اعظم کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر آیا ہے جب یونان کے پاس بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے لیے گئے قرض کی قسط کی مد میں ایک ارب 60 کروڑ یورو کی ادائیگی کے لیے دی گئی حتمی مدت کے خاتمے میں چند ہی گھنٹے باقی بچے ہیں۔

ادھر یورپی یونین کے رہنماؤں نے یونان کو خبردار کیا ہے کہ اگر قرض خواہوں کی تجاویز مسترد کر دی گئیں تو اس کا مطلب یونان کا یورپی اتحاد سے اخراج ہوگا۔

پیر کی شب یونانی ٹی وی پر ایک انٹرویو میں ایلکسس تسیپراس نے کہا کہ اتوار کو ریفرینڈم میں عوام کی جانب سے ’نفی‘ کا ووٹ ان کی حکومت کو قرض کے معاملے پر بات چیت کے دوبارہ آغاز کے لیے بہتر پوزیشن دے سکتا ہے۔

یونان کے وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ یونانی عوام کا ایک واضح جواب ہی ملک کے بیرونی قرضوں کے بحران کے ایک موافق حل کے سلسلے میں ان کی مدد کر سکتا ہے۔

تاہم انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ووٹرز نے ان کے منصوبوں کو رد کر دیا تو وہ مزید کٹوتیوں سے قبل ہی مستعفی ہو جائیں گے۔

ایلکسس تسیپراس نے کہا کہ ’اگر یونانی عوام کفایت شعاری کے منصوبے جاری رکھنا چاہتے ہیں تو ایسی صورت میں ہم سر اٹھانے کے قابل نہیں رہیں گے مگر ان کی خواہش کا احترام کریں گے لیکن وہ ہم نہیں ہو گے جو یہ اقدامات اٹھائیں گے۔‘

یونانی وزیرِ اعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ یونان کے قرض خواہ یہ نہیں چاہتے کہ وہ دیوالیہ ہو یا یورو سے نکال دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’وہ ہمیں یورو زون سے باہر نہیں نکالیں گے کیونکہ ایسا کرنے کی انھیں بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔‘

تاہم جرمنی کے وزیر خزانہ سیگمار گیبریئل نے کہا ہے کہ ووٹ کا مطلب ’یورو زون کو ہاں یا نہ‘ کہنا ہو گا۔

جرمنی کے وزیر خزانہ کے علاوہ یورو زون کی دیگر دو بڑی معاشی طاقتوں کے رہنماؤں کے مطابق یونان کی عوام کو ریفرینڈم میں موثر طریقے سے اس بات کو طے کرنا ہو گا کہ وہ یورو زون میں رہنا چاہتےہیں کہ نہیں۔

اٹلی کے وزیراعظم ماتئو رنتزی کا کہنا ہے کہ ریفرینڈم یورو اور یونان کی پرانی سرکاری کرنسی کے درمیان انتخاب ہو گا جبکہ فرانس کے صدر فرانسو اولاند نے کہا ہے کہ’ اس وقت داؤ پر یہ لگا ہے کہ آیا یونان یورو زون میں رہنا چاہتا ہے۔‘

برطانوی وزیر خزانہ جارج اوسبورن نے کہا ہے کہ یونان کا انخلا صدمے کا باعث ہو گا اور برطانیہ اس کے اثرات کو ہلکا نہیں لینا چاہیے۔

یونان کو دیوالیہ پن سے بچانے کے لیے بیل آؤٹ پیکیج پر یورپی ممالک اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے درمیان ہفتہ بھر جاری رہنے والے مذاکرات کسی معاہدے پر پہنچنے میں ناکام رہے تھے۔

ان مذاکرات کی ناکامی اور یورپی سینٹرل بینک کی جانب سے ہنگامی امدادی فنڈ میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے یونانی حکومت پہلے ہی ملک کے تمام بینک ایک ہفتہ تک بند رکھنے کا اعلان کر چکی ہے۔

حکومت کی جانب سے جاری ہونے والے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ سرمایہ یا نقدی کی قلت کی وجہ سے ملک کے مالیاتی نظام کو بچانے کے لیے یہ ’انتہائی ضروری‘ اقدام ہے۔

حکم نامے کے مطابق یونانی بینکوں کے اے ٹی ایم سے بھی ایک دن میں زیادہ سے زیادہ 60 یورو تک ہی رقم نکلوائی جا سکتی ہے۔