کفایت شعاری سے پانچ سال گزارنے کے بعد بھی یونان کی حکومت کو ایک مرتبہ پھر قرض دہندگان کے پاس پیسے مانگنے جانا پڑ رہا ہے۔




لیکن ملک کا پیچیدہ ٹیکس کا نظام اس میں سب سے بڑی رکاوٹ لگتا ہے۔


یونان کی ٹیکس اکٹھی کرنے والی ایجنسی کے سربراہ نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ’کوئی آسان کام نہیں ہے۔‘


یونان کے حالیہ ماضی کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ شاید وہ بات کو تھوڑا گھٹا کر پیش کر رہے ہیں۔


ہیری تھیوکیرس رکنِ پارلیمان ہیں لیکن وہ کسی وقت یونان میں سب سے زیادہ مطلوب شخص ہوا کرتے تھے۔


یہ ان کا کام ہے کہ وہ اقتصادی بحران کے دوران ٹیکسوں میں اضافے کی اور بدنام زمانہ غیر موثر ٹیکس کے نظام میں اصلاحات کی کوشش کریں۔


انھوں نے کہا کہ ’آپ سب کی زندگیوں کو مشکل بناتے ہیں۔۔۔ یہ چیز آپ کو بالکل مقبول نہیں بناتی۔‘


تھیوکیرس کی مشکل کا اندازہ لگانے کے لیے ذرا ایک مثال ہی لیں: یونان میں ویلیو ایڈڈ ٹیکس (ویٹ) کے چھ نظام ہیں۔ عام ریٹ 23 فیصد ہے، دو کم ریٹ ہیں جو خوراک، ایندھن اور ادویات وغیرہ پر عائد ہیں۔


لیکن یونان کے جزیرے بھی ویٹ میں کم ریٹوں سے مستفید ہوتے ہیں تاکہ ملک کے دور دراز علاقوں میں لوگوں کی حوصلہ افزائی ہو سکے اور ملک کی سیاحت کی اہم صنعت کی مدد ہو سکے۔


اس سے ٹیکس سے بچنے کے بہت مواقع پیدا ہو جاتے ہیں۔


مثال کے طور پر یونان کے جزیرے مائکونوس میں سیاحت میں حالیہ اضافے کے بعد یونان کی حکومت کو ویٹ کی مد میں کم ادائیگیاں کی گئیں۔


یونان کا پنشن کا نظام بھی اتنا ہی پیچیدہ ہے۔


اس کے بعد نجکاری بھی ہے۔ بحران کے آغاز میں یونان کی حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ وہ 50 ارب یورو کے قومی اثاثے فروخت کرے گی۔ تھیوکیرس کے مطابق یہ ٹارگٹ جلد ہی کم ہو کر 30 ارب یورو ہو گیا اور اب اسے 20 ارب یورو کر دیا گیا ہے۔


ابھی تک حکومت کل دو سے تین ارب یورو ہی اکٹھا کر پائی ہے۔


اس کے بعد کٹوتیاں بھی ہیں جنھیں واپس لے لیا گیا۔ قومی نشریاتی ادارے ای آر ٹی کو بند کرنے کے دو سال بعد دوبارہ کھول دیا گیا اور اس نے اس سال اپنے پروگرام بھی دوبارہ نشر کرنا شروع کر دیے ہیں۔


مسئلہ یہ نہیں ہے کہ یونان اصلاحات نہیں کر سکتا یا اسے پتہ نہیں ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ اس نے معیشت کو درپیش بنیادی ڈھانچے کے اہم مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوششیں کی ہی نہیں اور پانچ سال ضائع کر دیے۔


اگر وہ پانچ سال پہلے اصلاحات شروع کر دیتا تو ہو سکتا ہے کہ وہ اس طرح کے نتائج دیکھ رہا ہوتا جیسے آئرلینڈ اور اٹلی دیکھ رہے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یونان نے تو ابھی کام شروع ہی نہیں کیا۔


یاد رہے کہ یونان کو عالمی مالیاتی اداروں اور مشترکہ سکے یورو کے رکن ملکوں سے تقریباً سوا سات ارب یورو کے ہنگامی قرض کی ضرورت ہے۔


اگر جون کے اختتام سے پہلے یہ قرض نہ ملا تو یونان ڈیڑھ ارب یورو سے زیادہ مالیت کے پرانے قرض عالمی مالیاتی اداروں کو واپس ادا نہیں کر پائے گا۔


قرض کی ادائیگی میں ناکامی کا مطلب دیوالیہ پن ہو گا جس کے باعث یونان کو مشترکہ سکے سے خارج کر دیا جائے گا جو یورپی اتحاد سے اخراج پر بھی منتج ہو سکتا ہے۔


یونان کو دیوالیہ پن سے بچانے کے مذاکرات پانچ ماہ سے بغیر کسی نتیجے کے جاری ہیں اور عالمی مالیاتی فنڈ اور یورپی مرکزی بینک نے یونان میں اصلاحات تک کسی بھی طرح کی مزید امداد سے انکار کر دیا ہے۔


دوسری جانب یونان میں کھاتے داروں اور نجی اداروں نے گذشتہ چند روز میں بینکوں سے اربوں یورو نکال لیے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق روزانہ 70 کروڑ یورو بینکوں سے نکالے جا رہے ہیں جس سے بینکنگ نظام پر بہت زیادہ دباؤ پڑ گیا ہے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours