برطانیہ میں ایک سرکردہ سائنس دان نے کہا ہے کہ مستقبل میں منجمد نطفہ استعمال کرنے کے خواہشمندوں مردوں کو چاہیے کہ وہ اپنا نطفہ 18 برس کی عمر میں منجمد کرائیں۔


انسانی نطفے میں عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ خرابیوں کے امکانات بڑھتے جاتے ہیں جن میں ذہنی صلاحیت گھٹنا، ہلکے درجے کا پاگل پن یا سکٹزوفرینیا اور دوسری بیماریاں شامل ہیں۔


شمالی برطانیہ کے شہر ڈنڈی میں ایبرٹے یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر کیون سمتھ نے نیشنل ہیلتھ سروس میں نطفے ذخیرہ کرنے کو معمول بنانے کی تجویز بھی پیش کی ہے۔


لیکن تولیدی صحت کے ادارے برٹش فرٹیلٹی سوسائٹی نے کہا ہے کہ ڈاکٹر کیون کی تجاویز انسانی تخلیق کے بارے میں بہت ہی مصنوعی طرزعمل ہیں۔


سوسائٹی نے اس کے مقابلے میں نوجوان جوڑوں کو کام کے ساتھ ساتھ بچے پیدا کرنے میں سہولتیں دینے پر زور دیا ہے۔


برطانیہ میں عموماً مرد اولاد پیدا کرنے میں تاخیر کررہے ہیں اور انگلینڈ اینڈ ویلز میں باپ بننے کی اوسط عمر 20 برس پہلے کے مقابلے میں دوسال بڑھ کر 33 برس ہوگئی ہے۔


اور گو بڑی عمر میں بھی باپ بننا ممکن ہے لیکن اس کے منفی نتائج بھی ہو سکتے ہیں۔


ڈاکٹر کون سمتھ نے طبی جریدے جنرل آف میڈیکل ایتھکس میں شائع ہونے والے اپنے مقالے میں لکھا کہ امراض کے خدشات میں معمولی سے اضافے کو اگر قومی سطح پر پھیلا کر دیکھا جائے تو اِس کے بڑے اثرات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔


ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اولاد پیدا کرنے کی عمر اور آئندہ نسلوں پر اِس کے اثرات پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔


حل کے طور پر انھوں نے تجویز پیش کی کہ نیشنل ہیلتھ سروس کے تحت ہر نوجوان کو اپنا نطفہ منجمد کرانے کی سہولت دی جائے تاکہ وہ بڑی عمر میں اُس نطفے سے اولاد پیدا کر سکیں۔ ڈاکٹر کیون کے مطابق نطفہ منجمد کرانے کی بہترین عمر 18 برس ہے۔


نجی شعبے میں نطفہ محفوظ کرانے کی فیس ڈیڑھ سو سے دو سو پاؤنڈ سالانہ ہے لیکن نیشنل ہیلتھ سروس کے تحت خیال ہے کہ ایسی سروس سستی ہو گی۔


لیکن مردانہ تولیدی صحت کے ماہرین نے اس تجویز پر تحفظات بھی ظاہر کیے ہیں۔ شیفیلڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ایلن پیسی نے تو اِسے ایک لمبے عرصے میں سامنے آنے والی مضحکہ خیز تجویز قرار دیا اور کہا کہ بڑی عمر میں بھی باپ بننے کے منفی نقصانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔


برٹش فرٹیلٹی سوسائٹی کے سربراہ پروفیسر ایڈم بیلن بھی ہر مرد کے لیے منجمد نطفے کی سہولت کی تجویز سے متفق نہیں ہیں۔


اُن کا کہنا تھا کہ ایسی سہولت تحفظ کا جھوٹا احساس دیتی ہے کیونکہ منجمد نطفے تازہ نطفوں جیسے زرخیز نہیں ہوتے اور جوڑوں کو اولاد کے لیے ٹیسٹ ٹیوب کے مصنوعی طریقوں پر انحصار کرنا ہو گا۔


اسی طرح برطانیہ کی مردانہ تولیدی صحت سے متعلق ادارے اینڈرولوجی سوسائٹی کی سربراہ ڈاکٹر شینا لوئس نے بھی کہا ہے کہ مردوں کو پیشہ ورانہ زندگی کے آغاز ہی میں اولاد پیدا کرنے پر غور کرنا چاہیے۔


اُن کا کہنا تھا کہ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ 30 اور 40 کے پیٹے میں اولاد پیدا کرنا مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے بہتر ہو گا۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours