یونان کی طرف سے بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے لیےگئے قرض کی قسط کی ادائیگی کی حتمی مدت ختم ہو گئی ہے جبکہ یونان نے مہلت ختم ہونے سے پہلے یورو زون سے 29.1 ارب یورو کے بیل آؤٹ پیکیج کی درخواست کی تھی۔


یونان نے 30 جون تک آئی ایم ایف کو 1.1 ارب یورو کی قسط ادا کرنی تھی لیکن اب وہ پہلا ترقی یافتہ ملک بن گیا ہے جو آئی ایم ایف کا ڈیفالٹر بن گیا ہے۔


مہلت ختم ہونے سے پہلے یونان نے دو سال کے لیے 29.1 ارب یورو کی نئے بیل آؤٹ پیکیج کی درخواست کی ہے تاکہ سنہ2017 تک اپنے قرض کی قسطیں ادا کر سکے۔


یونان کی اس درخواست پر یورو زون کے وزراء خزانہ کی ویڈیو کانفرنس کے ذریعے بات چیت ہوئی ہے تاہم ابھی اس پر کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔


ادھر یونانی وزیر اعظم ایلکسس تسیپراس آئی ایم ایف کے قرض کی ادائیگی کے لیے یورپی یونین سے قرض لینے کے ساتھ وابستہ کفایت شعاری کی شرائط ماننے سے انکار کر رہے ہیں اور انھوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر یونانی عوام نے ریفرینڈم میں کفایت شعاری کی تجاویز ماننے کے حق میں ووٹ دیا تو وہ اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہو جائیں گے۔


یونان کے وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ یونانی عوام کا واضح جواب ہی ملک کے بیرونی قرضوں کے بحران کے موافق حل کے سلسلے میں ان کی مدد کر سکتا ہے۔


پیر کی شب یونانی ٹی وی پر ایک انٹرویو میں ایلکسس تسیپراس نے کہا کہ اتوار کو ریفرینڈم میں عوام کی جانب سے ’نفی‘ کا ووٹ ان کی حکومت کو قرض کے معاملے پر بات چیت کے دوبارہ آغاز کے لیے بہتر پوزیشن دے سکتا ہے۔


یونان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے رکھی گئی شرائط تسلیم کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں ملک میں پانچ جولائی کو ریفرینڈم منعقد ہو رہا ہے۔


تاہم انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ووٹروں نے ان کے منصوبوں کو رد کر دیا تو وہ مزید کٹوتیوں سے قبل ہی مستعفی ہو جائیں گے۔


ایلکسس تسیپراس نے کہا کہ ’اگر یونانی عوام کفایت شعاری کے منصوبے جاری رکھنا چاہتے ہیں تو ایسی صورت میں ہم سر اٹھانے کے قابل نہیں رہیں گے مگر ان کی خواہش کا احترام کریں گے لیکن وہ ہم نہیں ہو گے جو یہ اقدامات کریں گے۔‘


یونانی وزیرِ اعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ یونان کے قرض خواہ یہ نہیں چاہتے کہ ملک دیوالیہ ہو یا یورو زون سے نکال دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’وہ ہمیں یورو زون سے باہر نہیں نکالیں گے کیونکہ ایسا کرنے کی انھیں بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔‘


یونانی وزیرِ اعظم کا یہ بیان ایک ایسے موقعے پر آیا ہے جب یونان کے پاس بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے لیے گئے قرض کی قسط کی مد میں ایک ارب 60 کروڑ یورو کی ادائیگی کے لیے دی گئی حتمی مدت کے خاتمے میں چند ہی گھنٹے باقی بچے ہیں۔


ادھر یورپی یونین کے رہنماؤں نے یونان کو خبردار کیا ہے کہ اگر قرض خواہوں کی تجاویز مسترد کر دی گئیں تو اس کا مطلب یونان کا یورو زون سے اخراج ہو گا۔


تاہم جرمنی کے وزیر خزانہ سیگمار گیبریئل نے کہا ہے کہ ووٹ کا مطلب ’یورو زون کو ہاں یا نہ‘ کہنا ہو گا۔


جرمنی کے وزیر خزانہ کے علاوہ یورو زون کی دیگر دو بڑی معاشی طاقتوں کے رہنماؤں کے مطابق یونان کی عوام کو ریفرینڈم میں موثر طریقے سے اس بات کو طے کرنا ہو گا کہ وہ یورو زون میں رہنا چاہتے ہیں یا نہیں۔


اٹلی کے وزیراعظم ماتیو رینتسی کا کہنا ہے کہ ریفرینڈم یورو اور یونان کی پرانی سرکاری کرنسی کے درمیان انتخاب ہو گا جبکہ فرانس کے صدر فرانسوا اولاند نے کہا ہے کہ’ اس وقت داؤ پر یہ لگا ہے کہ آیا یونان یورو زون میں رہنا چاہتا ہے۔‘


برطانوی وزیر خزانہ جارج اوسبورن نے کہا ہے کہ یونان کا انخلا صدمے کا باعث ہو گا اور برطانیہ اس کے اثرات کو ہلکا نہیں لینا چاہیے۔


یونان کو دیوالیہ پن سے بچانے کے لیے بیل آؤٹ پیکیج پر یورپی ممالک اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے درمیان ہفتہ بھر جاری رہنے والے مذاکرات کسی معاہدے پر پہنچنے میں ناکام رہے تھے۔


ان مذاکرات کی ناکامی اور یورپی سینٹرل بینک کی جانب سے ہنگامی امدادی فنڈ میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے یونانی حکومت پہلے ہی ملک کے تمام بینک ایک ہفتہ تک بند رکھنے کا اعلان کر چکی ہے۔


حکومت کی جانب سے جاری ہونے والے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ سرمایہ یا نقدی کی قلت کی وجہ سے ملک کے مالیاتی نظام کو بچانے کے لیے یہ ’انتہائی ضروری‘ اقدام ہے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours