پاکستان میں خواجہ سراؤں کی آبادی ایک اندازے کے مطابق 80 ہزار سے زائد ہے جن میں سے بیشتر سرکاری یا غیرسرکاری ملازمتوں سے محروم ہیں اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بیشتر خواجہ سرا معاشرتی ناانصافیوں اور قانونی رکاوٹوں کے باعث اپنی تعلیم جاری رکھنے اور ملازمت حاصل کرنے سے محروم رہتے ہیں۔

سنہ 2013 کے عام انتخابات کی انتخابی فہرستوں کے مطابق ملک بھر میں محض 687 خواجہ سرا رجسٹرڈ ووٹرز تھے۔

راولپنڈی میں مقیم وینا خان ایسی خواجہ سرا ہیں جنھوں نے کم تعلیم کے باوجود بہتر معیار زندگی کے لیے ملازمت کی تلاش کی۔

ان کی یہ کوشش کامیاب ہوئی اور نیشنل کالج آف آرٹس کے راولپنڈی کیمپس کے انتظامیہ امور کے شعبے میں انھیں بطور اسسٹنٹ ملازمت مل گئی۔

وینا خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’لوگ پہلے مجھے بری نظر سے دیکھتے تھے اور اب بہت اچھا محسوس ہوتا ہے۔ طالب علم اور ساتھ کام کرنے والے بہت عزت کرتے ہیں اور دیگر افراد کی طرح کوئی تفریق نہیں کی جاتی۔‘

23 سالہ وینا خان کا تعلق صوبہ پنجاب کے شہر پاک پتن سے ہے اور چند سال قبل وہ اپنے گرو کے ہمراہ راولپنڈی منقتل ہوگئی تھیں۔

انھوں نے میڑک تک تعلیم حاصل کر رکھی ہے تاہم وہ مزید تعلیم حاصل کرنے کی بھی خواہش مند ہیں۔

ان کا کہنا تھا: ’مجھے کمپیوٹر کے استعمال کا بنیادی علم حاصل ہے اور میری خواہش ہے کہ میں مزید تعلیم حاصل کر سکوں اور اپنی قابلیت میں مزید بہتری لا سکوں۔‘

وینا خان دفتری اوقات کے بعد اور چھٹیوں میں شادیوں اور دیگر تقریبات میں بھی حصہ لیتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’میری گرو نے میری بہت حوصلہ افزائی کی ہے، انھوں نے مجھے تسلی دی اور آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا جس کی وجہ سے مجھے معاشرے میں باعزت مقام حاصل ہوا ہے۔‘

نیشنل کالج آف آرٹس کے اسسٹنٹ پروفیسر ایوب ولی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’پاکستان میں این سی اے شاید واحد تعلیمی ادارہ ہے جس نے معاشرے کے پسے ہوئے طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک فرد کو ملازمت کا موقع فراہم کیا ہے۔ یہ ایک نہایت خوش آئند اقدام ہے اور اس رجحان کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔‘

’خواجہ سراؤں کو بحیثیت پاکستانی اس معاشرے میں دیگر افراد کی طرح بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔‘

وینا خان نے خواجہ سرا برادری کو درپیش مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں پہلا دکھ اپنے گھر سے ہی ملتا ہے۔ اگر ہمارے خاندان والے ہماری شناخت قبول کر لیں تو ہمیں بہت سارے ایسے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے جو عام طور پر ہم کرتے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ وہ خوش قسمت ہیں کہ ان کی والدہ اب بھی ان سے رابطے میں ہیں تاہم خاندان کے دیگر افراد کا رویہ ان کے ساتھ کچھ اچھا نہیں ہے۔

وینا خان کی گرو اور سماجی کارکن ببلی ملک کا کہنا ہے ’ہماری کوشش ہے کہ ہم اپنی کمیونٹی میں ایچ آئی وی اور تعلیم کے بارے میں آگہی پیدا کریں۔‘

’اگر ہماری برادری کو تعلیمی سہولیات مہیا کی جائیں تو ہم بھی معاشرے کی ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘

نیشنل کالج آف آرٹس راولپنڈی کیمپس کے ڈائریکٹر ندیم عمر تارڑ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کا خواجہ سراؤں کو قومی شناختی کارڈز اور ملازمتیں فراہم کرنے کے حوالے سے حکم اس سلسلے کی اہم کڑی ہے۔

واضح رہے کہ پاکستانی حکام نے سنہ 2010 سے خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ جاری کرنے کا اعلان کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ تاحال بیشتر خواجہ سرا اپنے روایتی پیشے سے منسلک ہیں اور سرکاری یا غیرسرکاری ملازمتوں سے محروم ہیں۔

’قومی شناختی کارڈ پر خواجہ سرا کے والد کا نام درج نہیں ہوتا جس کے باعث وہ اپنا بینک اکاؤنٹ تک نہیں کھلوا سکتے، یہاں تک ایک موبائل سم خریدنے میں بھی انھیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘

ندیم عمر تارڑ کا کہنا تھا کہ خواجہ سرا کو تعلیم اور ہنر فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے میں ان کو ان کی منفرد شناخت کے ساتھ قبول کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا اس ضمن میں جن قانونی رکاوٹوں کا سامنا ہے ان کو بھی دور کرکے نئی قانون سازی کی ضرورت ہے۔

وینا خان پرامید ہیں کہ ان کی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد میں بھی تعلیم کے ذریعے سماجی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہم پاکستان کے شہری ہیں اور ہمیں مساوی شہری حقوق حاصل ہونا چاہیے۔ محض ’تیسری دنیا‘ کہہ کر ہمیں نظر انداز نہ کریں۔‘
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours