رواں ماہ جب اسرائیلی حکام نے شہری دفاع کی ایک بہت بڑی مشق کی تو انھوں نے وہ سب کچھ کِیا جو اسرائیل کسی بھی حقیقی جنگ کی صورت میں کرے گا۔ بڑے شہروں کے مرکزی چوراہوں اور سڑکوں پر فضائی حملے والے سائرن بجائے گئے اور خطے کی گھنٹی بجتے ہی سکولوں میں اساتذہ نے پہلے سے تربیت یافتہ بچوں کو بڑی مستعدی کے ساتھ کمروں سے باہر نکالنا شروع کر دیا۔


ریڈیو پر چلائے جانے والی مختصر دورانیے کی خبروں میں یہ بات بھی چُھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی کہ اسرائیل پر یہ حملہ کِیا کس نے ہے۔ یہ اچانک حملہ حزب اللہ کے فوجیوں نے کیا تھا، وہی حزب اللہ کی فوج جسے ایران نے اسلحہ فراہم کر کے شمالی لبنان میں بٹھایا ہوا ہے۔


ہو سکتا کہ شہری دفاع کی یہ مشقیں اسرائیل میں معمول کی بات ہوں، لیکن یہ مشقیں ایک ایسے وقت کی گئی ہیں جب امریکہ کی قیادت میں دنیا کی بڑی طاقتیں ایران کے ساتھ ایک ایسے سفارتی معاہدے کے حتمی مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں جس میں ایران کے جوہری پروگرام کے قابل تصدیق معائنے کے بدلے میں اس پر لگی شدید اقتصادی پابندیوں میں نرمی کی پیشکش کی جا رہی ہے۔


اسرائیلی رہنماؤں کو فکر ہے جتنا ایران کو وہ ’جانتے‘ ہیں یہ بڑی طاقتیں نہیں جانتیں۔


اسرائیل بڑی سختی سے اس بات پر ڈٹا ہوا ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے ہر صورت روکا جائےاور اسرائیل کو کوئی شک نہیں کہ مشرق وسطی اور شاید پوری دنیا کو جس سب سے بڑے خطرے کا سامنا ہے اس کا نام ایران ہے۔
اسرائیلی دماغ کیا سوچتا ہے


اسرائیل کے اس خوف کی وجوہات بے شمار ہیں کہ امریکی قیادت میں کام کرنے والی بڑی طاقتوں کو ایران سے اتنا خوف کیوں محسوس نہیں ہوتا جتنا ہونا چاہیے۔


اسرائیل کو خطرہ ہے کہ یورپ نے یہ بات بڑی جلدی قبول کر لی ہے کہ ایران میں سخت گیر صدر محمود احمدی نژاد کی جگہ قدرے نرم مزاج حسن روحانی کا صدر بن جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ ایران میں واقعی کوئی سیاسی تبدیلی آ گئی ہے۔ اسرائیل کے خیال میں یہ کوئی جوہری تبدیلی نہیں بلکہ ایران کی اس سیاسی لیپا پوتی کا مقصد محض دنیا کو بے وقوف بنانا ہے۔


اسرائیل کے رہنماؤں کو خدشہ ہے کہ کہیں یورپ ایران میں اس خیالی سیاسی تبدیلی کو اصل تبدیلی سمجھتے ہوئے ایران سے کوئی جوہری معاہدہ نہ کر بیٹھے۔


اور دوسری جانب اسرائیل کو یہ خطرہ بھی ہے کہ کہیں صدر اوباما بین الاقوامی سطح پر اپنی اچھی یادیں چھوڑنے کے چکر میں یہ امید نہ لگا بیٹھیں کہ وہ انقلابی ایران کو درست سمت پر ڈال سکتے ہیں۔


یہ خدشات اپنی جگہ، لیکن اسرائیل کو جس خوف کا فوری سامنا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایران جوہری بم حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کا پہلا نشانہ اسرائیل ہی ہوگا۔


یہاں یہ ذکر کرنا غلط نہ ہوگا کہ ایران اس بات سے بالکل واضح انکار کرتا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار حاصل کر رہا ہے بلکہ اس کا اصرار ہے کہ اس کے یورینئم کی افزودگی کے منصوبے کے مقاصد پرامن ہیں اور وہ افزودہ یورینئم سے محض بجلی پیدا کرے گا یا اسے کینسر کے علاج کے لیے استعمال کرے گا۔


اسرائیل کے دفاعی اور انٹیلیجنس امور کے بہترین تجـزیہ کاروں کے سردار رونن برگمین کے بقول اس بات کا اندازہ کرنا بہت آسان ہے کہ عام اسرائیلیوں کے دلوں میں اپنی بقا کا خوف کتنا گہرا اور حقیقی ہے۔


ان کے بقول ’جب بھی ایران اور اسرائیل کے درمیان تناؤ بڑھ جاتا تھا لوگ ہر روز بلکہ ہر گھنٹے مجھے گلیوں میں روک لیتے ہیں اور یہی پوچھتے ہیں کہ اگر ایران کے پاس جوہری ہتھیار ہیں تواحمدی نژاد کب ’سرخ بٹن‘ دبا دیں گے۔‘


’میں نہیں سمجھتا کہ احمدی نژاد ایسا کرتے لیکن اسرائیل میں لوگوں کا ذہن یہی کہتا ہے کہ جیسے ہی ایران کے پاس کوئی جوہری ہتھیار آ گیا وہ فوراً اسے اسرائیل پر داغ دے گا۔‘
’پکا دشمن‘


ایران اور بڑی طاقتوں کے درمیان مذاکرات میں اسرائیل کوئی فریق نہیں ہے لیکن وہ امریکہ اور یورپ کو ایران کے خلاف سخت موقف اختیار کرانے کے لیے پسِ پردہ سرتوڑ کوششیں کرتا رہا ہے۔


اسی طرح اسرائیل کے خفیہ ادارے موساد کے ایک ریٹائرڈ افسر نے ہمیں بتایا کہ ان کے ادارے کا زیادہ وقت اور توانائی ایران پر صرف ہوتی ہے۔ اور اس توانائی اور وقت میں وہ توانائی اور وقت شامل نہیں ہے جو اسرائیلی خفیہ ایجنسی اسرائیل کے حزب اللہ اور حماس جیسے ان دشمنوں پر صرف کرتی ہے جنھیں ایران کی پشت پناہی حاصل ہے۔


اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل ایران کو ایک دشمن تصور کرتا ہے جس کے پاس جذبہ ہے، توانائی ہے اور وہ خطرناک بھی ہے اور سب سے بڑھ کر ایک ایسا دشمن جسے روکا نہیں جا سکتا۔


اسرائیل کے خفہ اداروں کے سابق وزیر ڈین مریڈور سمجھتے ہیں کہ ایران کے خلاف اقتصادیاں پابندیوں کے کارگر ہونے کی واحد وجہ یہی ہے کہ ایران بین الاقوامی سطح پر کوئی تجارت نہیں کر سکتا اور نہ ہی بین الاقوامی بینکوں کے راستے ملک سے پیسہ باہر بھیج سکتا ہے یا وصول کر سکتا ہے۔


ایران کا ہدف یہ ہے کہ وہ کسی طرح ان پابندیوں میں نرمی کروا لے، لیکن مسٹر میڈور کہتے ہیں کہ امریکہ اور دیگر بڑی طاقتوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان پابندیوں میں نرمی بڑی سوچ سمجھ کے ساتھ کرنا ہوگی۔


’ایرانی اس معاملے میں بڑے سنجیدہ ہیں اور چالاک بھی۔ لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ جرمنوں کی طرح اپنے مطلب کی سیاست کرنا جانتے ہیں۔‘
حملے سے پہلے جوابی حملہ؟


مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے دشمنوں کی اکثریت کو اسرائیلی نکتہ نظر سے منافقت کی بو آتی ہے۔ خطے کے کسی ملک کو بھی یہ شک نہیں کہ اسرائیل کئی برس پہلے جوہری ہتھیار حاصل کر چکا ہے، اسی لیے کوئی بھی ملک اتنا بے وقوف نہیں کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے سوال پر اسرائیل کی خاموشی پر اعتبار کر لے۔


لیکن اسرائیل کہتا ہے کہ ایران کا معاملہ اسرائیل سے مختلف ہے۔


کئی اسرائیلیوں کو یقین ہے کہ ایران کے مذہبی پیشوا ’بم‘ اسی لیے بنانا چاہتے ہیں کہ وہ اسرائیل کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیں۔ دیگر اسرائیلیوں کو خوف ہے کہ ایران ایک ایسی علاقائی طاقت بننا چاہتا ہے کہ کسی دوسرے ملک کے پاس یہ جرات نہ رہے کہ وہ ایران کے ساتھ کسی قسم کی دھکم پیل کر سکے۔


ایک انقلابی طاقت کے ناطے ایران سمجھتا ہے کہ وہ اپنا انقلاب خطے کے دوسرے ممالک کو برآمد کر سکتا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ اسے انقلاب کا پھیلاؤ نہیں بلکہ دہشتگردی کا پھیلاؤ سمجھتے ہیں۔


شیعہ اسلام کی دنیا میں ایک بڑی طاقت ہونے کے حوالے سے ایران سمجھتا ہے کہ اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ لبنان، عراق، شام اور یمن سمیت پورے مشرق وسطیٰ کی شیعہ برادریوں کو مسلح کرے اور ان کا دفاع کرے۔


جو ڈراؤنا خواب اسرائیل کی نیندیں اڑا رہا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایران کے ہاتھ جوہری ہتھیار آ جاتے ہیں تو وہ ایک نئے اعتماد کے ساتھ خطے میں اپنا اثر رسوخ بڑھانا شروع کر دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ کئی برسوں تک یہ خبر گردش کرتی رہی ہے کہ ایران کی جانب سے کسی ممکنہ حملے سے پہلے ہی اسرائیل ایران کے جوہری اثاثے تباہ کر دے گا۔


گذشتہ دو برسوں سے یہ خبر سرد پڑ گئی تھی اور بظاہر اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل ایران پر نئی پابندیوں کو کچھ وقت دینا چاہتا تھا۔


لیکن اسرائیلی انٹیلیجنس امور کے ماہر رونن برگمین کہتے ہیں کہ ایرانی تنصیبات پر حملہ بدستور اسرائیل کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔


یاد رہے کہ اسرائیل سنہ 1981 میں عراق اور پھر سنہ 2007 میں شام کی جوہری تنبصیبات پر فضائی حملہ کر چکا ہے اور اسرائیل کے سابق وزیر اعظم نے صاف کہہ رکھا تھا کہ اسرائیل اپنے کسی ایسے دشمن کی جوہری تنصیبات سلامت نہیں چھوڑے گا جو اسرائیل کی تباہی پر تُلا بیٹھا ہو۔


مسٹر برگمین کے بقول ’ یہی وہ وجہ ہے کہ اگر اسرائیلی وزیر اعظم کو اطلاع ملتی ہے کہ ایران بم بنانے کے قریب پہنچ گیا تو وہ اپنے بمباروں کو حکم دے دیں کے وہ جا کر ایران کی جوہری تنصیبات تباہ کر دیں۔
بُرے وقت کی تیاری


اگر ایران پر اس قسم کا کوئی حملہ کیا جاتا ہے تو ایران اس کا فوری جواب دے گا۔ اس کے لیے یا تو وہ براہ راست اسرائیل پر میزائلوں سے حملہ کر دے گا اور یا باالواسطہ حزب اللہ کو اسرائیل کی شمالی سرحد پر حملے کے لیے استعمال کرے گا۔


اس ماہ اسرائیل میں کی جانے والی شہری دفاع کی مشقوں کا مقصد ملک کو ایسی ہی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار کرنا تھا۔


خیالی حملے سے بچاؤ کی مشقیں اپنی جگہ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ فی الحال اسرائیل کا انحصار اسی بات پر ہے کہ امریکی مذاکرات کار یہ یقینی بنائیں کہ ایران کی جانب سے اسرائیل پر حملہ ایک خواب ہی رہے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو، لیکن ایران کے ساتھ معاہدے کا وقت اتنا قریب آ جانے کے بعد بھی اسرائیلیوں کا خوف اور شکوک ختم نہیں ہوئے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours