پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے خیبر پختونخوا میں اطلاعات تک رسائی کے قانون کو اپنی بڑی کامیابی قرار دیا تھا لیکن اب اس قانون میں ترمیم کر کے صوبائی اسمبلی کو بطور ایک ادارہ اس سے خارج کر دیا گیا ہے۔


صوبے میں حکومت کے اس اقدام پر کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔ حزب اختلاف کے اراکین کا کہنا ہے کہ یہ ترمیم بدنیتی پر مبنی ہے۔


صوبائی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں اطلاعات تک رسائی کے قانون کے ترمیمی بل سال 2015 کو اس وقت عجلت میں منظور کر لیا گیا جب حزب اختلاف کے اراکین نے اجلاس کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ اس ترمیم میں یہ کہا گیا ہے کہ اسمبلی ایک خود مختار ادارہ ہے اس لیے اس قانون کے تحت عام آدمی کو اس سے متعلق کوئی معلومات فراہم نہیں کی جا سکیں گی ۔یہ ترمیم چند روز پہلے منظور کی گئی ہے۔


حکومت کے اس اقدام پر کڑی تنقید کی جا رہی ہے اور اسے تحریک انصاف حکومت کا ایک اور یو ٹرن قرار دیا جا رہا ہے۔


عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ حکومت کی نااہلی ہے اور اس ساری کوشش میں حکمرانوں کی بد نیتی چھپی ہوئی ہے ۔


انھوں نے کہا کہ صوبائی اسمبلی کے اپنے فنڈز اور بجٹ ہوتے ہیں اور اس میں نوکریاں بھی دی جاتی ہیں، اس لیے اس ادارے کو قانون میں ترمیم کر کے خارج کر دیا گیا ہے تاکہ لوگوں کو معلوم نہ ہو کہ یہاں کون کیا کر رہا ہے ۔


سردار حسین بابک نے کہا کہ یہ عجب صورت حال ہے کہ عوام کی ووٹ سے منتخب ہونے والے اراکین خود عوام سے اسمبلی کی سرگرمیاں پوشیدہ رکھیں حالانکہ چاہیے تھا کہ یہ ادارہ سب سے پہلے لوگوں کو اطلاعات فراہم کرتا۔


ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ یہ ترمیمی بل اس وقت منظور کیا گیا جب جماعت کے سربراہ عمران خان بیرون ملک دورے پر تھے اور انھوں نے اس ترمیم پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔ ذرائع ابلاغ میں ایسا تاثر بھی دیا گیا ہے جیسے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا بھی اس ترمیم کے حق میں نہیں تھے۔


اس بارے میں صوبائی اسمبلی کی جانب سے ایک ای میل کے ذریعے یہ وضاحت کی گئی ہے کہ اس اقدام کے پیچھے سپیکر اسد قیصر کی ذاتی کوششیں نہیں تھیں بلکہ سپیکر اور وزیر اطلاعات نے مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا۔


اس بیان میں کہاگیا ہے کہ اسمبلی ایک خود مختار ادارہ ہے اور اس کے تقدس کی خاطر یہ ترمیم لائی گئی ہے۔


اگر سپیکر کی اس منطق کو مان لیا جائے تو پھر کیا اب یونیوسیٹیوں اور ہسپتالوں کو بھی قانون میں ترمیم کر کے اس قانون سے خارج کر دینا جانا چاہیے؟


پاکستانی فوج، عدلیہ اور پولیس کے حساس ادارے بھی اس قانون میں شامل نہیں ہیں۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours