گزشتہ بدھ کے روز سیف الدین الرزقی اپنے آبائی شہر میں واقع ایک کیفے میں بیٹھا دوستوں کے ہمراہ اپنی پسندیدہ فٹبال ٹیم، لڑکیوں اور بریک ڈانس میں مہارت کے بارے میں گپ شپ لگا رہا تھا۔


یونیورسٹی میں ایم اے کی تعلیم کے دوران چھٹیوں پر آئے ہوئے سیف الدین نے جمعرات کے روز اپنے چچا سے ملاقات کی، جس میں خاندانی معاملات پر گفتگو ہوئی۔ اس کے ایک دن بعد وہ انتہائی سکون کے ساتھ ساحلی شہر سوسہ کے امپیریل مرحبا بیچ ہوٹل پہنچا اور وہاں کلاشنکوف سے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ تقریباﹰ پانچ منٹ میں یہ نوجوان جہادی گروپ داعش کے نام پر انتالیس غیرملکیوں کو ہلاک کر چکا تھا۔


ایک مرتبہ پھر تیونس اس صدمے میں تھا کہ کس طرح ایک عام اور نارمل زندگی گزارنے والا نوجوان اسلامک اسٹیٹ کے پرتشدد نظریات کو عملی جامہ پہنا چکا تھا، کتنے کم وقت میں مڈل کلاس کا ایک پڑھا لکھا نوجوان داعش کا حامی بن گیا تھا اور کتنی جلد ایک بریک ڈانسر، میوزک فین اور فٹبال کا دلدادہ لڑکا داعش کا جہادی عسکریت پسند بن چکا تھا۔ اس حملے کے دوران سیف الدین بھی ہلاک ہو گیا تھا۔


تیونس کے علاقے کعفور میں واقع ایک منزلہ گھر کے باہر سیف الدین الرزقی کے رشتہ اور ان سے اظہار تعزیت کرنے کے لیے آنے والے اہل خانہ کے دوست احباب جمع ہیں۔ پلاسٹک کی ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے اس کے چچا علی الرزقی کا کہنا تھا، ’’ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ وہ اس طرح کا دہشت گردانہ کام کرے گا۔ شاید اس کے خیالات وہاں تبدیل ہوئے ہوں، جہاں وہ تعلیم حاصل کر رہا تھا، شاید انٹرنیٹ پر اسے کسی نے متاثر کیا تھا، ہمارے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔‘‘


گندم کے کھیتوں اور زیتون کے درختوں کے درمیان واقع کعفور جیسے دیہی علاقوں میں نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع بہت کم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے علاقوں کے زیادہ تر نوجوان روزگار یا تعلیم کے لیے قریبی شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ سیف الدین کے دوستوں اور ہمسایوں کے مطابق وہ خوشگوار طبعیت والا ایک باتونی لڑکا تھا۔ اس نے کبھی بھی مذہب پر بات نہیں کی تھی۔ وہ گھر سے دور تعلیم حاصل کر رہا تھا لیکن زیادہ تر گھر واپس آ جاتا تھا۔


گزشتہ بدھ کو اس نے القیروان سے واپسی پر ایک کیفے میں اپنے دوستوں سے ملاقات کی، جہاں فٹبال اور گانے کے مقابلوں کے بارے میں گپ شپ ہوتی رہی۔ اس کے ایک دوست محمد کا کہنا تھا، ’’اس کی گفتگو سے بنیاد پرستی یا کسی دوسری چیز کا شائبہ تک نہیں ہوا۔ اس نے کبھی مذہب سے متعلق بات ہی نہیں کی تھی۔ یہ ایک دھچکے سے کم نہیں ہے کہ ایک دوست، جس کے ساتھ آپ نے طویل عرصہ گزارا ہو، یکدم قاتل بن جائے۔‘‘


تاہم سیف الدین نے وہی راستہ اختیار کیا، جو تیونس کے ہزاروں نوجوان اختیار کر چکے ہیں اور وہ ہے، عراق اور شام میں سرگرم عمل داعش میں شمولیت کا راستہ۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق تین ہزار سے زائد تیونسی شہری شام، عراق اور ہمسایہ ملک لیبیا میں جہاد کے لیے اپنا وطن چھوڑ چکے ہیں۔ حکام کے مطابق سیف الدین القیروان میں تعلیم حاصل کر رہا تھا اور وہاں ہی اس کے عسکریت پسندوں سے روابط قائم ہونے کا خدشہ ہے۔ اس شہر کی سب سے مشہور مسجد 2011ء کے انقلاب کے بعد سے انصار الشریعہ جیسی تنظیموں کے بنیاد پرستوں کا مرکز بنی ہوئی ہے۔


لیکن حکام کا کہنا ہے کہ سیف الدین دہشت گردی یا انتہا پسندی سے متعلق کسی بھی واچ لسٹ میں نہیں تھا۔ پولیس نے کبھی اس کی کوئی مشتبہ سرگرمی نوٹ نہیں کی تھی۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق یوں لگتا ہے کہ سیف الدین کا عسکریت پسندوں سے رابطہ گزشتہ چھ ماہ کے اندر اندر ہوا تھا۔ ایک سکیورٹی اہلکار کا کہنا تھا، ’’وہ انٹرنیٹ کے ذریعے تیونس سے باہر کہیں عسکریت پسندوں سے رابطے میں تھا۔‘‘ سکیورٹی ذرائع کے مطابق یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سیف الدین نے داعش سے متاثر ہو کر اکیلے ہی یہ اقدام اٹھایا ہو لیکن جیسا بھی ہے، اس نے اپنی خفیہ زندگی کو انتہائی راز داری میں رکھا ہوا تھا۔


سیف الدین کے ساتھ ایک گروپ میں بریک ڈانس کرنے والے اس کے دوست احمد کا کہنا ہے، ’’مجھے ابھی تک یقین نہیں آ رہا۔ میں جب بھی کلاشنکوف کے ساتھ اس کی تصویر دیکھتا ہوں تو میرے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ ہم ایک ساتھ کس طرح رہے؟‘‘
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours