سرمایہ دارانہ اقتصادی پالیسیوں کے خلاف انڈونیشیا کی ایک اسلام پسند جماعت نے اقتصادی موومنٹ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ محمدیہ نامی یہ تنظیم اپنے ملک کی دوسری بڑی اسلام پسند جماعت ہے۔

اسلام پسند تنظیم محمدیہ نے اپنی اقتصادی تحریک کے حوالے سے جو منشور مرتب کیا ہے، اُس میں اوّلین نکتہ ملکی سطح پر کارسازی ہے۔ اسلام پسند تنظیم نے ملک کے سابق آمریت پسند لیڈر سوہارتو کے بیٹے ٹومی کے اِس منصوبے کو دوبارہ شروع کرنے کو اہم قرار دیا ہے۔ ٹومی نے سن 1996 میں ملکی کار تیار کرنے کی پلاننگ کی تھی اور یہ منصوبہ اُس وقت مشرقِ بعید میں جنم لینے والے اقتصادی بحران کی نذر ہو گیا تھا۔ بعض انڈونیشی ماہرین کے مطابق ٹومی کی کار سازی کا پلان انتہائی مبہم ہے۔

محمدیہ اسلام پسند گروپ تقریباً ایک صدی پرانا ہے۔ اب تک یہ اپنے ملک میں اسکولوں اور ہسپتالوں کی بہبود پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھا۔ اِس گروپ کے متعدد اراکین کئی دوسرے ممالک میں بھی موجود ہیں۔ یہ تحریک ملکی سیاحتی شعبے، فُوڈ انڈسٹری اور ماہی پروری میں بھی قدم رکھنے کا سوچ رہی ہے۔ اقتصادی میدان پر فوکس کرنے کی وجہ اِس گروپ کو توانائی اور واٹر سیکٹرز میں حاصل ہونے والی دستوری کامیابیاں خیال کی گئی ہیں۔ کئی دانشور حلقے محمدیہ کی اِن کامیابیوں کو دستوری جہاد قرار دیتے ہیں۔ اب محمدیہ کے منصوبہ ساز اقتصادی اور کارپوریٹ سیکٹر کو اپنی پلاننگ کے تحت ایک نئی جہت دینا چاہتے ہیں۔

محمدیہ تحریک کے کارکنوں کی تعداد تیس ملین بتائی جاتی ہے۔ اِس تحریک کی قیادت نے اِس یقین کا اظہار کیا ہے کہ اُن پر لازم ہے کہ وہ جنوب مشرقی ایشیا کی سب سے بڑی اقتصادیات کو ہر ممکن طریقے سے عالمگیریت اور سرمایہ دارانہ پالیسیوں سے محفوظ رکھیں۔ دوسری جانب یہ اہم ہے کہ عالمگیریت اور سرمایہ داری پالیسیوں کی وجہ سے انڈونیشیا میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا عمل جاری ہے اور یہی اِس ملک کی اقتصادیات کا بڑا سہارا ہے۔ محمدیہ کی نئی کوششوں سے صدر جوکو وِدودو کی غیر ملکی سرمایہ داروں کے لیے مرتب کردہ ترغیبات کو بڑا جھٹکا لگ سکتا ہے۔



انڈونیشیا کی دوسری بڑی اسلام پسند تنظیم محمدیہ کے اقتصادی شعبے کے سربراہ صیافرالدین انہار کا کہنا ہے کہ اُن کی تنظیم انڈونیشیا کی مڈل کلاس طبقے کی اقتصادی جدوجہد کا حصہ بن چکی ہے۔ انڈونیشی مڈل کلاس میں سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام کے متوازی سوشلسٹ اکنامک نظام کی کشش شدت سے پائی جاتی ہے۔ انہار کے مطابق عالمی سطح پر خوشحالی کا حصول اقتصادی توازن سے ممکن ہے اور سیاسی سازشیں اِس میں منفی کردار ادا کرتی ہیں۔ اِسی ادارے نے تین برس قبل ملک کے تیل اور گیس کے قوانین کو عدالت میں چیلنج کیا تھا اور اُن کی کامیابیوں سے تحریک کو عوامی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔ یہ تحریک ملک کے 115 مختلف قوانین کو عدالت میں چیلنج کرنے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ ان میں غیر ملکی زرمبادلہ ذخائر اور ان کا استعمال، غیر ملکی سرمایہ کاری اور بجلی پیدا کرنے والا شعبہ شامل ہے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours