شمسی توانائی سے چلنے والا طیارہ سولر امپلس بحرالکاہل کو عبور کرنے کے لیے اب دوبارہ اڑان بھر چکا ہے۔

خیال رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں سولر امپلس کی بحرالکاہل کو عبور کرنے کی کوشش کو خراب موسم کے سبب ترک کرنا پڑا تھا اور اسے جاپان میں اتار لیا گیا تھا۔

اتوار کو طیارہ جاپان کی ناگویا ایئر فیلڈ سے گرینچ کے معیاری وقت کے مطابق شام چھ بجے روانہ ہوا اور اسے شیڈیول کے مطابق 120 گھنٹوں میں امریکی ریاست ہوائی پہنچنا ہے۔

سولر امپلس کی ٹیم نے بحرالکاہل کو عبور کرنے کے لیے تقریباً دو ماہ تک موسم کے صاف ہونے کا انتظار کیا۔

سولر امپلس پراجیکٹ کا مقصد کسی خاص قسم کی ہوا بازی کا مستقبل پیش کرنا نہیں بلکہ صاف ستھرے ایندھن کے استعمال کا مظاہرہ کرنا ہے۔

موسم کے خراب ہونے کی صورت میں اس بار بھی ہوسکتا ہے کہ سولر امپلس کو واپسی پر مجبور ہونا پڑے۔ تاہم اگر پائلٹ کامیاب ہو گئے تو یہ نہ صرف ہوا بازی کی تاریخ کی طویل ترین سولو فلائٹ ہوگی بلکہ شمسی توانائی کی مدد سے بھی کسی شے کا یہ سب سے لمبا سفر ہوگا۔

دنیا کے گرد چکر لگانے میں بحرالکاہل کو عبور کرنے کی صورت میں سولر امپلس کے سفر کا یہ آٹھواں مرحلہ ہے۔

یہ مرحلہ سب سے مشکل ثابت ہوا ہے جس کے آغاز میں کئی ہفتوں کے حساب سے رکاوٹ آئی ہے۔سولر امپلس کو سوئٹزلینڈ کے پائلٹ آندرے بورشبرگ چین سے امریکی ریاست ہوائی لے جا رہے تھے لیکن انھیں موافق موسم کے انتظار میں زمین پر موجود ٹیم کے ساتھ کئ ہفتے گزارنے پڑے۔

31 مئی کو انھوں نے اپنے سفر کا آغاز کیا مگر موسم کی خرابی کی وجہ سے انھیں جاپان میں اترنا پڑا۔وہاں موسمِ برسات کی وجہ سے یہ امکان تھا کہ طویل انتظار کرنا پڑے گا تاہم گذشتہ ہفتے کی ایک ناکام کوشش کے بعد اب ماہرین موسمیات کو یقین ہے کہ پانچ دن اور پانچ راتوں میں بحرالکاہل کو عبور کر لیا جا سکےگا۔

آٹھ گھنٹوں کی پرواز کے بعد واپسی ممکن نہیں ہو گی لیکن اگر اس سے قبل موسم کے حوالے سے پیش گوئی بدل گئی تو پائلٹ کے پاس آپشن ہوگا کہ وہ واپس جاپان آجائے۔

31 مئی کو طیارے نے نانجینگ سے ہوائی کے لیے سفر کا آغاز کیا تھا تاہم اسے خراب موسم کی وجہ سے جاپان کے شہر نگویا میں اتارنا پڑا۔

اس سولر امپلس کو نہ صرف موافق ہوا کی ضرورت ہے بلکہ اسے صاف موسم کی بھی ضرورت ہوگی تاکہ اس کے پروں پر لگے 17 ہزار سیلز اپنی بہترین کارکردگی دے سکیں۔

پائلٹ آندرے بورشبرگ کو دورانِ سفر صرف 20 منٹ کے لیے سستانے کا موقع ملے گا۔

اگر یہ پرواز کامیاب ہوگئی تو طیارہ دنیا کے گرد چکر لگانے کا عمل جاری رکھے گا۔ اور اگلے مرحلے میں ہوائی سے ’یو ایس مین لینڈ‘ تک پہنچے کے لیے طیارے کا کنٹرول بیٹرینڈ پیکارڈ کے پاس ہوگا۔

اور پھر طیارہ شمالی امریکہ میں اپنا سفر جاری رکھے گا اور بحر اوقیانوس کے اوپر سے بھی پرواز کرےگا۔

لیکن اگر طیارے کے طے شدہ شیڈیول میں کوئی تبدیلی آئی اس کا اثر آنے والے مرحلوں پر ہوگا۔

خیال رہے کہ طیارے کو بحر اوقیانوس کو اگست سے قبل عبور کرنا ضروری ہے کیونکہ اس کے بعد اس علاقے میں بادوباراں کا آغاز ہو جاتا ہے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours