اسقاط حمل پر مکمل پابندی والے یورپی کیتھولک ملک پولینڈ میں خواتین کو یہ سہولت فراہم کرنے کے لیے ایک غیر سرکاری ادارے نے ڈرون کا استعمال شروع کر دیا ہے۔

جرمن پولستانی فضائی سرحد پار کر کے پولینڈ پہنچنے والے ڈرون طیاروں کے نچلے حصے میں اسقاط حمل کو ممکن بنانے والی گولیوں کے پیکٹ نصب کیے گئے اور انہیں پولینڈ کے مغربی سرحدی شہر سلوبیس پہنچایا گیا۔ اس مہم کا مقصد پولستانی حکام کی توجہ اسقاط حمل پر پابندی سے متعلق قوانین کی طرف مبذول کرانا ہے۔ 

یہ پیش قدمی ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک غیر سرکاری ادارے ’ویمن آن ویوز‘ نے شروع کی ہے۔ اس مہم میں خواتین کے اسقاط حمل کے حق کی حمایت کرنے والے متعدد ڈاکٹر اور سماجی طور پر سرگرم عناصر شامل ہیں۔ اسقاط حمل کے لیے استعمال میں لائی جانے والے دوائی کو لے کر جانے والے اس ڈرون کو جرمنی سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ 

غیر سرکاری تنظیم ’ویمن آن ویوز‘ نے پہلی بار اسقاط حمل کی دوائی کے ساتھ دو خواتین کو بھی پولینڈ بھیجا ہے۔ اس ادارے سے منسلک ایک گائناکالوجسٹ گونیلا کلائی وردا نے بتایا کہ انہیں ابھی سے بتا دیا گیا ہے کہ ایسی ہی ایک مہم بہت جلد آئرلینڈ کے لیے بھی شروع کی جائے گی۔ اس کے علاوہ یوروگوائے اور برازیل کے لیے بھی اس مہم کو شروع کرنے پر بحث ہو رہی ہے۔ جرمن پولیس کی طرف سے پولینڈ کے شہر سلوبیس میں اس مہم کو ناکام بنانے کی کوشش کے باوجود یہ کامیاب رہی اور عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے اس امر کی تصدیق کر دی ہے کہ اسقاط حمل کی گولیاں پولینڈ کی خواتین تک پہنچ گئی ہیں۔ کیتھولک پولینڈ کا شمار یورپ کے اُن چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں اسقاط حمل وسیع تر حد تک ممنوع ہے۔ استثناء محض ایسے کیسز کو حاصل ہے جن میں حاملہ خاتون کے جنین میں کسی قسم کی بے ضابطگی یا نقص کی تشخیص ہو جائے یا حاملہ خاتون کی صحت اور زندگی کو خطرہ ہو۔ اس کے علاوہ اگر حمل کا سبب کسی عورت کے ساتھ کی جانے والی جنسی زیادتی یا زنائے محرم ہو تو بھی حاملہ عورت اسقاط حمل کروا سکتی ہے۔ 

اکثر ڈاکٹر ایسے کیسز میں بھی اسقاط حمل سے گریز کرتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے خلاف مقدمے یا پھر قانونی چارہ جوئی کا خوف ہوتا ہے۔ ’ویمن آن ویوز‘ کی امراض نسوانی کی ماہر، ڈاکٹر گونیلا کلائی وردا کے بقول ان کے پاس ایسے کیسز کے ثبوت موجود ہیں جن میں ڈاکٹروں نے اسقاط حمل کرنے سےانکار کر دیا۔ مثال کے طور پر جنسی زیادتی کے نتیجے میں حاملہ ہونے والی ایک چودہ سالہ لڑکی کی مدد کرنے سے ڈاکٹروں نے انکار کر دیا۔ ڈاکٹر گونیلا کلائی وردا کہتی ہیں، ’’ہم پولینڈ کا قانون تو نہیں بدل سکتے تاہم ہم اس طرف لوگوں کی توجہ دلا سکتے ہیں اور پھر یہ ان ملکوں کے باشندوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خود اس حوالے سے فعال ہو جائیں۔‘‘
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours