پورے تہران میں جگہ جگہ سڑکوں پر رولیکس اور لوئی ویتوں جیسے بڑے برانڈز کے اشتہارات اور شاپنگ سینٹر دیکھ کر اس بات کا انداز ہو جاتا ہے کہ ایران میں بڑے برانڈز کا کاروبار تیزی سے بڑھ رہا ہے۔


ایران میں انقلاب اسلام کے بعد کئی دہائیوں کی معاشی تنگی کے بعد مڈل کلاس نے بڑے برانڈز کا استمعال کرنا شروع کر دیا ہے اور تہران کے امیر ترین نوجوانوں کے لیے شاپنگ ایک نیا مذہب ہے۔


30 سالہ فیشن بلاگر بہار کا کہنا ہے: ’انٹرنٹ، سیٹلائٹ ٹی وی اور بیرونی ممالک میں سفر کرنے سے لوگوں میں بڑے برانڈز کے کپڑے پہننے کا رجحان پیدا ہوا ہے۔‘


تہران کے بعض امیرترین نوجوانوں نے اپنی برانڈڈ مصنوعات کی نمائش کرنے کے لیے ’رچ کڈز آف تہران‘ نامی انسٹاگرام اکاؤنٹ بنایا ہے جس میں وہ اپنے ڈیزائنر کپڑوں اور ڈیزائنر طرزِ زندگی کی تصاویر شائع کرتے ہیں۔


جب یہ سائٹ منظر عام پر آئی تو اس وقت غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے عوام اور ایران کے سیاسی اور آئینی عہدوں پرفائز قدامت پسندوں نے غصے اور نفرت کا اظہار کیا تھا۔


لیکن بظاہر ان امیر ترین ایرانی نوجوان پر اس کا کوئی اثر نظر نہیں آیا اور وہ بدستور اس ویب سائٹ پر اپنی ڈیزائنر زندگی کی نمائش کر رہے ہیں۔


اس ویب سائٹ پر حال ہی میں تہران فیشن ویک کی تصاویر شائع کی گئیں اور لوگوں سے پوچھا گیا کہ وہ اس برس چھٹی منانے کہاں جا رہے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں لوگوں نے دبئی، ترکی، استنبول، اٹلی اور جاپان جیسے ممالک جانے کے ارادے کے بارے میں بتایا۔


چونکہ قیمتی برانڈز ابھی تک صرف امیر طبقے ہی کا شوق ہیں، اسی لیے ایران کی ’کسٹمز اتھارٹی لسٹ‘ میں درآمد ہونے والی 100 مصنوعات کی فہرست میں یہ میں قیمتی برانڈز شامل نہیں ہیں۔


لیکن اس طرح کے اشارے مل رہے ہیں کہ میک اپ سے متعلق مہنگے برانڈز کی منصوعات کی برآمد میں اضافے کی گنجائش ہے۔


سنہ 2015 میں ملک میں درآمدات کی کل مالیت 52 ارب ڈالر تھی جس میں میک اپ سے متعلق مصنوعات اس مالیت کا 0.1 فی صد تھیں۔


تہران کے شاپنگ مالز بھی دنیا میں دوسرے ملکوں کے بڑے شاپنگ مالز جیسے ہی دکھائی دیتے ہیں لیکن ان میں جو قیمیتی ڈیزائنر مصنوعات فروخت ہوتی ہیں وہ ترکی اور خلیجی ممالک میں کاروبار کرنے والے ڈیلر سپلائی کرتے ہیں۔ جو شاپنگ مالز یہ مصنوعات فروخت کرتے ہیں ان کا ان مصنوعات بنانے والی کمپنیوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔


ایران پر مغربی فیشن برانڈز کی تجارت کرنے پر پابندی نہیں ہے۔ لیکن ایران کے جوہری پروگرام کے سبب اس پر عالمی بینکوں سے متعلق پابندیوں کے سبب ان برانڈز کے لیے وہاں کاروبار کرنا تھوڑا مشکل ضرور ہوتا ہے۔


ایران میں ابھی تک جن مغربی کمپنیوں نے اپنے بڑے ریٹیل سٹورز کھولے ہیں ان میں مینگو، بینیٹن اور ایسکاڈا اہم ہیں۔


مریم ایک دفتر میں کام کرتی ہیں۔ وہ سالانہ 17 ہزار ڈالر کماتی ہیں اور انھوں نے حال ہی میں اپنی ایک ماہ کی تنخواہ سے زیادہ کی قیمت کا ’بربری‘ کمپنی کا بیگ خریدا ہے۔


انھوں نے یہ بیگ قیمتی برانڈز کی مصنوعات فروخت کرنے والی ایک ایرانی ویب سائٹ سے خریدا تھا۔ یہ ویب سائٹ مقامی کریڈٹ کارڈ سے رقم کی ادائیگی قبول کرتی ہے اور سامان مفت گھر بھجوا دیتی ہے۔


مریم نے بی بی سی فارسی کو بتایا کہ انھیں سستا سامان خریدنے سے زیادہ برانڈڈ مصنوعات پر بھروسہ ہے۔


ان کا کہنا ہے: ’مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والوں پر قیمتی کپڑے اور گھڑیاں پہننے کا دباؤ ہوتا ہے، اور ذاتی طور خود مجھے بڑے برانڈز کے کپڑے پہننے سے خوداعتمادی کا احساس ہوتا ہے۔‘


کئی برسوں سے عالمی پابندیوں کے باوجود ایم آئی ایف یعنی بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے مطابق ایران کی فی کس آمدن 5200 ڈالر ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے ایران میں عام طور پر لوگوں کے پاس تیزی سے ترقی کرتے ممالک جیسے برازیل، چین، انڈیا، اور جنوبی افریقہ کے لوگوں سے زیادہ پیسہ ہے۔


اور جیسا کہ امید کی جا رہی ہے کہ جوہری معاہدہ ہونے پر اگر ایران پر عائد پابندیاں ختم ہو گئیں تو وہ بڑے برانڈز، جنھیں ایران جیسی نئی منڈی میں قسمت آزمائی کا انتظار ہے، امیر تر ہو جائیں گے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours