شبانہ اعظمی کا شمار ان فنکاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے ’انکر‘، ’منڈی‘، ’نشانت‘، ’پار‘، ’ارتھ‘ جیسی معرف آرٹ فلموں میں اداکاری سے اپنی الگ جگہ بنائی تو وہیں ’پرورش‘ اور ’امر اکبر انتھوني‘ جیسی کمرشل فلمیں بھی کیں۔


بی بی سی سے خصوصی بات چیت میں شبانہ نے اپنی زندگی اور کام سے وابستہ کئی پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔


اس سوال پر کہ متوازی اور کمرشل فلموں میں سے کون سا تجربہ بہتر رہا؟ ان کا کہنا تھا کہ یہ دونوں الگ الگ دنیائیں ہیں۔


’ہمارے زمانے میں فلموں میں سکرپٹ نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی تھی۔ کئی بار ایسا ہوتا تھا کہ میں اور راجیش کھنہ جب کوئی سین کر رہے ہوتے تھے تو پہلے صفحے کے بعد دوسرے کا کچھ اتا پتا نہیں ہوتا تھا۔‘


شبانہ کے مطابق اس کی وجہ یہ ہوتی کہ ’قادر خان کسی تیسرے سٹوڈیو میں بیٹھ کر سین لکھ رہے ہوتے تھے۔ ظاہر ہے ایسے ماحول میں سین میں کسی طرح کی حقیقت اتار پانا مشکل تھا۔‘


انھوں نے کہا کہ اس کے برعکس ’شیام بینیگل کی اور متوازی سنیما کی دیگر فلموں میں گہرائی میں جا کر کام کرنے کا موقع ملتا تھا کیونکہ ان کا پوری سکرپٹ ہوتا تھا، حقیقت سے اس کا واسطہ تھا۔‘


انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر متوازی سنیما نہ ہوتا تو انھیں کبھی خواتین کے موضوعات پر مبنی اچھی فلمیں نہیں ملتیں: ’میرے دور میں بالی وڈ میں عورت یا تو دیوی کا روپ تھی یا پھر ولن لیکن آرٹ ہاؤس فلموں نے عورت کے دل و دماغ کے کئی پہلوؤں کو اجاگر کیا۔‘


شبانہ اعظمیٰ کا کہنا تھا کہ اداکاری اور فنونِ لطیفہ سے ان کا تعلق بچپن سے ہی جڑ گیا تھا


’تب میں صرف چار ماہ کی تھی۔ ماں شوکت کیفی مجھے اپنی پیٹھ پر لاد کر پرتھوی تھیٹر ریہرسل میں لے جایا کرتی تھیں۔ ابا کیفی اعظمی مجھے مشاعروں میں بھی لے جایا کرتے تھے۔‘


ان کا کہنا تھا کہ ’اس ماحول میں رفتہ رفتہ تھیٹر کی جانب دلچسپی بڑھی۔ بعد میں میں نے پونا فلم اینڈ ٹی وی انسٹي ٹيوٹ جانا شروع کیا۔ وہاں ورلڈ سینیما دیکھنے کا موقع ملا۔ ان سب نے مجھ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔‘


انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ’نو سال کی عمر تک میں کمیونسٹ پارٹی کے ماحول میں رہی۔ وہاں ہر كامریڈ کے پاس صرف 225 مربع فیٹ کا ایک کمرہ ہوتا تھا۔ آٹھ خاندان ایک باتھ روم اور ٹائلٹ شیئر کرتے تھے۔‘


شبانہ کا کہنا تھا کہ وہ اپنی پہلی شناخت ایک عورت کے طور پر کروانا چاہتی ہیں اور سماجی کاموں اور اداکاری دونوں سے ان چیزوں کو فروغ دیتی ہوں جن پر وہ یقین رکھتی ہیں۔


’سب سے پہلے میں ایک عورت ہوں۔ پھر ایک ہندوستانی ہوں، ماں ہوں، بیٹی ہوں، بیوی ہوں، اداکارہ ہوں، مسلم ہوں۔ سب ایک ساتھ۔ ایکٹنگ اور ایكٹیوزم کو میں ایک دوسرے سے علیحدہ تصور نہیں کرتی۔‘


ان کے مطابق ’میری پرورش ایسے ماحول میں ہوئی جہاں میں نے سماجی تبدیلی کے لیے فن کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا سیکھا۔‘


فلم ’فائر‘ میں ایک ہم جنس پرست عورت کے متنازع کردار پر بات کرتے ہوئے شبانہ نے کہا کہ ’ایسا نہیں ہے کہ میں جان بوجھ کر تنازع پیدا کرتی ہوں۔ لیکن مجھے سکھایا گیا ہے کہ جو درست ہے اس کے لیے آواز اٹھاؤ۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم جنس پرستوں کے بھی مساوی حقوق ہیں۔‘


انھوں نے کہا کہ ’اس كردار کو دیکھ کر بہت سے لوگ دنگ رہ گئے، کئی ناراض تھے، بعض تذبذب میں تھے لیکن کم از کم ایک بحث شروع ہوئی اور کسی بھی مسئلے سے نمٹنے کا پہلا قدم یہی ہوتا ہے۔‘


اس سوال پر کہ وہ خصوصاً سماجی مسائل کے حوالے سے تنقید کا ہدف کیوں رہی ہیں، شبانہ نے کہا کہ ’تنقید کو نہ نظر انداز کرتی ہوں نہ اس پر غصہ آتا ہے۔ اقلیتوں کے حقوق، ایڈز، عورتوں سے متعلق کئی مسائل پر کام کیا۔ نیلسن منڈیلا والی تقریب بھی ہوئی جہاں بن بات کے تنازع کھڑا کر دیا گیا۔‘


ان کا کہنا تھا کہ ’لوگوں نے مجھے بے پناہ محبت اور عزت دی۔ لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہوگا ہی جسے واقعی میرا کام پسند نہیں۔ اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہر انسان کو اپنا خیال ظاہر کرنے کی آزادی ہے۔‘
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours