سب سے پہلی فلم کس نے بنائی تھی؟ لیومیئر برادرز اور تھامس ایڈیسن کو عموماً پہلی حرکت کرتی ہوئی فلم بنانے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے۔ تاہم ایک نئی ڈاکیومنٹری میں یہ کہا گیا ہے کہ پہلی فلم اصل میں 1888 میں لیڈز میں بنائی گئی تھی۔ لیکن اس کے فلم میکر سنیما کی تاریخ میں اپنا نام آنے سے پہلے ہی کہیں غائب ہو گئے تھے۔

جب فلمساز اور ڈسٹری بیوٹر ڈیوڈ ولکنسن ہالی وڈ، نیویارک یا کانز جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ وہ اس شہر سے تعلق رکھتے ہیں جہاں فلم ایجاد کی گئی تھی۔

ان کے جاننے والے الجھن میں پڑ جاتے ہیں کہ نہ تو ان کا لہجہ امریکی ہے کہ ان کا تعلق تھامس ایڈیسن کی جائے پیدائش سے ہو اور نہ وہ فرانس سے ہیں جو لومیئرز کر سرزمین تھی۔

وہ بعد میں بتاتے ہیں کہ ان کا تعلق دراصل انگلینڈ کے شہر لیڈز سے ہے۔

ولکنسن کہتے ہیں کہ فلم بزنس میں ان کے 33 سالہ دور میں شاید کچھ ہی لوگ ہوں گے جو یہ سمجھے ہوں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں، اور کیوں لیڈز کو فلم کی جائے پیدائش کہا جا سکتا ہے۔

اس دعوے کا تعلق 125 سال پہلے سے ہے جب 14 اکتوبر 1888 کو ایک خاندان لیڈز کے نواحی علاقے راؤنڈھے کے ایک باغ میں اکٹھا ہوا۔

اس گروہ میں لوئس لی پرنس بھی تھے جن کے ہاتھ میں ایک عجیب سا لکڑی کا ڈبہ تھا۔ انھوں نے اپنے ساتھ موجود لوگوں، جن میں ان کے بیٹے، ایک دوست اور ساس سسر شامل تھے، سے کہا کہ وہ ڈبے کے سامنے ایک دائرے میں چلیں۔

یہ ڈبہ لوئس لی پرنس کا کیمرہ تھا اور ہم اب بھی ایک چھوٹی سی خاموش فلم دیکھ سکتے ہیں جو اس سے بنائی گئی تھی۔ یہ فلم ایڈیسن اور لومیئرز کے منظر عام پر آنے سے بہت پہلے بنائی گئی تھی۔

ولکنسن نے اب ایک فلم بنائی ہے جس کا ٹائٹل ’دی فرسٹ فلم‘ ہے، جس میں لی پرنس کو حرکت کرتی ہوئی تصاویر کا موجد کہا گیا ہے۔

بریڈفورڈ کے نیشنل میڈیا میوزیم کی ایسوسی ایٹ کیوریٹر ٹونی بوتھ کہتی ہیں کہ ’اس کے لیے بہت مضبوط دلیل موجود ہے، یقیناً۔‘ اس میوزیم میں لی پرنس کا تاریخی کیمرہ اور فٹیج رکھا گیا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اگر آپ اس کیمرے کا میکینیزم یا کام کرنے کا طریقہ دیکھتے ہیں تو یہ اس کے بعد آنے والے حرکت کرتی ہوئی تصاویر کے کیمروں سے بہت ملتا جلتا ہے۔‘

’یہ ایک فلم رول ہے جو ایک پھرکی سے دوسری پھرکی پر شٹر سے گھومتا ہے اور سلسلہ وار تصاویر لیتا ہے، جن کو بعد میں اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ وہ حرکت کرتی ہوئی لگیں۔‘

’لائیو ایکشن کی حرکت کرتی تصاویر کو ریکارڈ کرنے والی چیز کے حوالے سے ہاں میں کہوں گی کہ وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے یہ کیا تھا۔‘

لی پرنس نے پہلے 16 لنیز والا کیمرہ بنایا لیکن اس کے بعد سنگل لینز بنا لیا۔

لی پرنس شمال مشرقی فرانس کے شہر میٹز میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے یونیورسٹی سے فزکس اور کیمسٹری کی تعلیم حاصل اور بطور فوٹوگرافر اور پینٹر کام کرنے لگے۔ اس کے بعد لیڈز کی ایک انجینئرنگ کمپنی جان وہٹلیز نے انھیں نوکری دے دی۔

لیڈز آنے کے تین سال بعد انھوں نے کمپنی کے مالک کی بیٹی ایلزبتھ وہٹلے سے شادی کر لی۔ یہ وہ وقت تھا جب فوٹوگرافی مشہور ہونا شروع ہوئی اور لی پرنس حرکت کرتی ہوئی تصاویر کے لیے تجربے کرنا شروع ہو گئے تھے۔

1880 تک وہ ان موجدوں کی صف میں شامل ہو چکے تھے جو اس ٹیکنالوجی پر کام کر رہے تھے جسے بعد میں فلم کہا گیا۔

لی پرنس کے پہلے کیمرے کے 16 لینز تھے۔ لیکن لی پرنس نے باغ کے منظر اور لیڈز کے پل پر آتے جاتے لوگوں کو فلم بند کرنے کے لیے ایک لینز والا کیمرہ استعمال کیا تھا۔

انھوں نے کامیابی سے ایکشن کو فلم بند کیا لیکن ان کی اس ایجاد کا کسی کو نہ پتہ چلا کیوں کہ کسی نے یہ ایجاد دیکھی ہی نہیں۔

وہ اپنے تجربات کرتے رہے اور 1890 میں نیو یارک میں پبلک سکریننگ کرنے والے ہی تھے کہ وہ کہیں غائب ہو گئے۔ انھوں نے ستمبر 1890 میں دو دوستوں کے ہمراہ دیجون سے پیرس کے لیے گاڑی پکڑنی تھی لیکن اس کے بعد وہ پھر کبھی نظر نہ آئے۔

ان کی موت کے کافی مفروضے ہیں۔ ان کی بیوی لزی کہتی ہیں کہ ایڈیسن نے انھیں مروایا تاکہ وہ ان کے راستے سے ہٹ جائیں۔

کچھ کہتے ہیں لی پرنس نے خود کشی کر لی تھی کیونکہ وہ تقریباً دیوالیہ ہونے والے تھے۔ یا پھر وہ جان بوجھ کر غائب ہو گئے اور کہیں اور نئی زندگی شروع کر دی۔

ایک اور میں کہا گیا ہے کہ ان کے بھائی البرٹ نے انھیں جائداد کے تنازعے پر قتل کر دیا تھا۔

کچھ کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے خاندان والوں کو جب یہ پتہ چل کہ وہ ہم جنس پرست ہیں تو انھوں نے ہی انھیں کہا کہ وہ کہیں چلے جائیں۔

ڈیوڈ ولکنسن کہتے ہیں کہ اگر وہ غائب نہ ہوتے تو فلم نیو یارک میں دکھائی جاتی۔

’مجھے پورا یقین ہے کہ وہ ممتاز سامعین سے اتنی رقم اکٹھی کر لیتے کہ وہ اس کی مینوفیکچرنگ بہت بڑے پیمانے پر شروع کر دیتے۔‘

’وہ وہی کرتے جو ایڈیسن اور لومیئرز نے کیا لیکن وہ ان سے پہلے یہ کر لیتے۔ وہ مشہور ہو جاتے۔‘

لی پرنس کی سگڑ پوتی لائری سنائڈر اپنی یاداشت میں لکھتی ہیں کہ ’میرے خاندان میں کئی مفروضے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ ایڈیسن کا اس میں کوئی ہاتھ تھا، کچھ سمجھتے ہیں کہ وہ خود ہی غائب ہوئے۔‘

ان کے خیال میں ان کی پہلی گاڑی چھوٹ گئی تھی اور انھوں لیٹ ٹرین لی تھی جو کہ رات گیارہ بجے پیرس پہنچی۔ وہاں سے ورکشاب جانے کے لیے انھوں نے ٹیکسی لی ہو گی۔

’میرے خیال میں میں ڈرائیور اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں کہیں دور دریائے سین کے کنارے لے گیا ہو گا اور سر پر کچھ مار کر سین میں پھینک دیا ہو گا۔ اس زمانے کے دو مضامین کے مطابق بتایا گیا ہے کہ چور اکثر اکیلے مسافروں کو نشانہ بناتے تھے اور لی پرنس غلط جگہ پر غلط وقت پر تھے۔‘

وہ اس مفروضے کو بھی رد کرتی ہیں کہ ان کے بھائی نے انھیں قتل کر دیا تھا۔

اور آخر میں اس بات کو کہ ان کے خاندان نے ان کی ہم جنس پرستی کے متعلق جاننے کے بعد انھیں کہا کہ وہ غائب ہو جائیں وہ یہ کہہ کر رد کر دیتی ہیں کہ انھوں نے انھیں ڈھونڈنے کے لیے بھاری رقم اور وقت صرف کیا تھا۔



Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours