امریکہ دولتِ اسلامیہ کے خلاف عراق اور شام میں جاری جنگ میں یومیہ 90 لاکھ امریکی ڈالر خرچ کر رہا ہے جبکہ دو ارب 70 کروڑ ڈالر اب تک ہونے والے فضائی حملوں میں لگائے جا چکے ہیں۔
خیال رہے کہ بین الالقوامی اتحادی فوجیں گذشتہ سال اگست سے شام اور عراق میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہیں۔
اس جنگ کے آغاز کے بعد سے اب تک امریکہ کے مالی اخراجات پہلی بار سامنے آئے ہیں اور انھیں پینٹاگون نے ریلیز کیا ہے۔
ان اعدادو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جنگی اخراجات میں سے دو تہائی فضائی کارروائیوں پر خرچ ہو رہے ہیں۔
خیال رہے کہ امریکی کانگرس نے مزید خرچ پر پابندی عائد کرنے کے لیے نئی قانون سازی کی تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔
امریکی ایوانِ نمائیندگان نے 57 ارب 90 کروڑ ڈالر کا دفاعی بل کے لیے منظور کییا تھا۔ اراکین نے ان ترامیم کے مطالبے کو رد کر دیا جس میں کہا گیا تھا کہ دولتِ اسلامیہ کے خلاف جنگ میں مزید رقم دیے جانے کو روکا جائے۔
عراق میں اگست 2014 میں فوجی کارروائی کے آغاز کے بعد امریکی اخراجات میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
ایک روز قبل ہی امریکہ نے عراق کے لیے مزید 450 فوجی بھجوانے کا اعلان کیا تھا۔ جس کےبعد عراق میں موجود امریکی فوجیوں کی کل تعداد 3500 ہو جائے گی۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یہ فوجی جنگ کے لیے نہیں بلکہ عراقی فوج کی تربیت کے لیے وہاں موجود ہیں۔
گذشتہ روز ایک امریکی جنرل نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ عراق میں امریکہ کی مداخلت مزید آگے بڑھ سکتی ہے۔
جنرل ڈیمسی جو کہ چیئیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف ہیں کا کہنا ہے کہ مستقبل میں فضائی حملوں کا آپشن موجود ہے جن کے باعت امریکی فوجی دستے صفِ اول میں لڑنے والوں کے قریب ہو جائیں گے۔
انھوں نے شمالی عراق میں امریکی فوجیوں کی جانب سے تربیتی مرکز قائم کرنے امکان پر بھی بات کی۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours