جب دولت اسلامیہ نے شام کے شہر پیلمائرا پر گذشتہ ماہ قبضہ کیا تو اس نے سب سے پہلے وہاں قائم ملک کی بدنام زمانہ جیل تدمر کو دھماکے سے اڑا دیا۔ اس بدنام زمانہ جیل میں کئی دہائیوں تک سیاسی مخالفین کو رکھ کر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا اور بی بی سی کے ثمر داغستانی نے اس کی تاریخ پر نظر ڈالی ہے۔

مغرب کے لوگ پیلمائرا کو اس کے یونانی و رومی دور کے آثار قدیمہ کے لیے جانتے ہیں لیکن عربی میں اسے تدمر کہا جاتا ہے اور یہ نام بہت سے شامیوں میں خوف کی لہر دوڑا دیتا ہے کیونکہ ان کے لیے یہ نام موت، اذیت، خوف اور پاگل پن کا مترادف ہے۔

تدمر کی بدنامِ زمانہ جیل دمشق سے 200 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ہے اور اسے فرانسیسیوں نے ریگستان کے قلب میں سنہ 1930 کی دہائی میں بنایا تھا۔

تاہم اسے اصل ’شہرت‘ حافظ الاسد کے 30 سالہ دور اقتدار (1971 سے 2000) کے دوران ملی جب اطلاعات کے مطابق یہاں ہزاروں سیاسی مخالفین کو مبینہ طور پر ذلیل کیا گیا، اذیتیں دی گئیں یا بغیر مقدمہ چلائے قتل کر دیا گيا۔

فلسطینی مصنف سلامہ کیلہ کا جنھوں نے وہاں سنہ 1998 سے 2000 تک دو سال گزارے، کہنا ہے کہ ’اسے جیل خانہ کہنا صریح ناانصافی ہوگی۔ جیل میں آپ کے بنیادی حقوق ہوتے ہیں لیکن تدمر میں آپ کو کچھ حاصل نہیں۔‘

تدمر میں سیاسی قیدیوں کو من مانے ڈھنگ سے قید کیے جانے اور انھیں اذیتیں دیے جانے کا معاملہ سنہ 1970 کی دہائی میں اس وقت شروع ہوا جب حزب اختلاف کی ایک تحریک نے زور پکڑنا شروع کیا۔


اخوان المسلمون اور متعدد ديگر سیکولر پارٹیوں نے ملک میں سیاسی نمائندگی اور قانون کی بالادستی کا مطالبہ کیا تھا۔ ان مطالبات کے سامنے آنے کے بعد اخوان المسلمون کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور اس کی مسلح شاخ نے فوج اور اسد حکومت کے خلاف پرتشدد کارروائیاں بھی کیں۔

لیکن سنہ 1970 کی دہائی کے اواخر اور 1980 کی دہائی کے اوائل میں شام میں بائیں بازو اور اسلامی گروپ کے ہزاروں حامیوں کو گرفتار کر لیا گيا۔

ان میں سے بہت سوں کو پھانسی دے دی گئی یا پھر اذیتیوں کے سبب ہلاک ہو گئے۔ جو خوش قسمت تھے انھوں نے تین چار سال قید میں گزارے لیکن بعض تو وہاں 20، 20 سال سے قید تھے۔

تدمر کی دیواروں کے اندر جو قتل عام سنہ 1980 میں ہوا تھا وہ ابھی بھی شام کے شعور پر کندہ ہے۔ حافظ الاسد کو ہلاک کرنے کی ایک ناکام کوشش کے ایک دن بعد بدنام زمانہ ڈیفنس بریگیڈ ہیلی کاپٹر سے دمشق سے تدمر پہنچی اور ایک ایک قید خانے میں جا کر فوجیوں نے قیدیوں کو مشین گنوں سے چھلنی کر دیا۔


خیال رہے کہ اس وقت اس بریگیڈ کی سربراہی حافظ الاسد کے بھائی رفعت کر رہے تھے۔

کسی کو معلوم نہیں کہ اس کارروائی میں کتنے لوگ مرے لیکن سنہ 2001 میں شائع ہونے والی ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ میں تخمینہ پیش کیا گیا ہے کہ چند منٹ کے اندر 500 سے 1000 کےدرمیان افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا اور ان میں زیادہ تر اخوان المسلمین کے مشتبہ حامیان تھے۔

کہا جاتا ہے کہ ان کی لاشوں کو جیل خانے سے باہر ایک اجتماعی قبر میں ڈال دیا گیا تھا۔

اس قید خانے کو ’پینیپٹیکون‘ طرز پر بنایا گیا تھا کہ ایک ہی جگہ سے سب پر نظر رکھی جا سکے۔ یہ ایک دائرہ نما عمارت تھی جس میں قیدیوں پر ہر وقت نظر رکھی جاتی تھی۔

یہ نام یونانی دیومالا سے ہے جس میں ایک سو آنکھوں والا اسی نام کا عفریت ہے۔
اس جیل کے سابق قیدی نے ایمنسٹی کو بتایا کہ اس میں سات صحن ہیں جبکہ 40 سے 50 بڑے قیدخانے ہیں جبکہ 39 چھوٹے قیدخانے ہیں۔

اس میں 19 تادیبی تہہ خانے بھی ہیں جو قید تنہائی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
کیلہ نے بتایا: ’تمام ڈارمیٹریز میں کھڑکیاں تھیں لیکن ان میں سلاخیں لگی ہوئی ہیں جن سے قیدیوں پر ہمہ وقت نظر رکھی جاتی۔ ہمیں پتہ نہیں چلتا تھا کہ گارڈز ہمیں دیکھ رہے ہیں یا نہیں لیکن کوئی بھی اپنی جگہ سے اٹھنے یا سر اٹھانے کی اجازت نہیں تھی کیونکہ اس کا نتیجہ برا ہو سکتا تھا۔‘
شامی مصنف یاسین حج صالح نے اپنے مضمون روڈ ٹو تدمر میں لکھا: ’جب تک کہ ہم قید سے نکل نہیں آئے میں نے اپنے کسی بھی قیدی کی آنکھیں نہیں دیکھیں اور نہ ہی انھوں نے میری آنکھیں دیکھیں۔
صالح سنہ 1995 سے 1996 تک وہاں قید رہے۔
ایک دوسرے شامی مصنف اور شاعر فرج بیرکدار نے بتایا: ’ہم محافظوں کو ان کے جوتوں کے رنگ سے پہچانتے تھے کیونکہ ہم نے کبھی ان کا چہرہ نہیں دیکھا۔ کالے جوتوں والے گارڈز اچھے تھے لیکن سبز جوتوں والے بے رحم تھے۔
رہائی کے بعد بھی یہ قیدی برسوں کسی سے آنکھ ملانے کے قابل نہیں رہے۔
تشدد اس جیل میں روزانہ کا معمول تھا جو کہ درد کا ایک طویل سفر اور سسک سسک کے مرنے کے مترادف تھا۔
ایک سابق قیدی نے لکھا: ’جب تشدد کے بھیس میں یہاں موت روزانہ آتی ہو، بعض اوقات پٹائی، آنکھیں نکال دینا، ٹوٹے ہوئے اعضا اور کچلی ہوئی انگلیاں۔ کیا ایسے میں آپ کسی رحم کے جذبے کے تحت ماری جانے والی گولی کا خیرمقدم نہیں کریں گے؟
سابق قیدی عام طور پر تدمر میں اپنے پہلے گھنٹے کی اذیتوں کو یاد کرتے ہیں جو ’رسیپشن پارٹی‘ کہلاتی تھیں۔ 

ایک سابق قیدی نے ایمنسٹی کو بتایا: ’وارڈنز ہمیں بے رحم اور بہیمانہ انداز میں اس وقت تک بس سے اتارتے رہے جب تک ہم سب باہر نہ آ گئے۔ فوجی پولیس نے ہماری جامہ تلاشی لی اور ہمیں ایک ایک کر کے موٹر کار کے ٹائر میں گھسنے پر مجبور کیا گیا اور پھر ہر ایک کو 200 سے 400 بار تلووں پر پیٹا گيا۔‘ 

انھوں نے کہا: ’ہر ایک کی حالت خراب تھی، پاؤں سے خون رس رہا تھا اور پاؤں کے ساتھ جسم کا دوسرا حصہ بھی زخمی تھا۔ کچھ قیدی تو اس رسیپشن پارٹی میں چل بسے۔‘ 
قیدیوں کے مطابق جیلروں کو کچھ بھی کرنے یہاں تک کہ قتل کی بھی کھلی چھوٹ ملی ہوئی تھی۔ کیلہ کا کہنا ہے کہ ’آپ کی زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔‘ 

اس جیل کے محافظ ذلیل کرنے کے نئے نئے طریقے ایجاد کرنے میں ماہر تھے۔ 
کیلہ کہتے ہیں کہ وہ ٹارچر کے عجیب وغریب اور مریض ذہنیت کے طریقے اختیار کرتے بعض اوقات تو بوریت دور کرنے ے لیے ایسا کرتے

ایک رات جو گارڈ اوپر سے انھیں دیکھ رہا تھا اس نے کہا کہ تمام چپلیں قید خانے میں لے جائیں جو کہ تقریبا سو جوڑی ہوں گی۔ اس نے کہا کہ وہ اس کے لیے صرف اپنے منھ کا استعمال کریں گے اور وہ ساری رات اس طرح چپلیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے رہے۔ 

دیگر قیدی بتاتے ہیں کہ کس طرح دو قیدیوں کو ایک قیدی کو پاؤں اور ہاتھ سے پکڑ کر اچھالنے کے لیے کہا جاتا پھر اس قیدی کو زمین پر گرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا۔ ایک قیدی جس نے ایسا کرنے سے انکار کیا اسے اس قدر پیٹا گیا کہ ایک ماہ بعد اس کی موت ہو گئی۔ 

قیدی لبِ مرگ ساتھیوں کے لیے دوا کے حصول کے لیے جب بھی چیختے اور گارڈ کا ایک ہی جواب ہوتا: ’ہمیں صرف لاش اٹھانے کے لیے آواز دیا کرو۔‘ 

بیرکدار نے بتایا: ’تدمر موت اور وحشت کی سلطنت ہے۔ ایسی کسی جگہ کا ہونا ہی نہ صرف شامیوں کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے شرمندگی ہے۔‘ 

جب دولت اسلامیہ نے اس عمارت پر قبضہ کیا تو اس نے اس کی تصاویر بھی جاری کیں جبکہ اس سے پہلے جیل کےگارڈز اور قیدیوں کے علاوہ اس کو اندر سے کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ 

لیکن دولتِ اسلامیہ کے ہاتھوں اس جیل کی تباہی بہت سے لوگوں کے لیے صدمہ تھی جو اسے ظلم و جبر کی نشانی کے طور پر باقی دیکھنا چاہتے تھے

لبنان سے تعلق رکھنے والے علی عبودین نے اس جیل میں چار سال گزارے اور انھوں نے خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا کہ ’دولتِ اسلامیہ نے ایک تاریخی نشانی ختم کر دی جسے باقی رہنا چاہیے تھا کیونکہ اس کے ہر کمرے میں کسی نہ کسی مرنے والی کی کہانی تھی۔
ایک اور سابق قیدی یاسین صالح نے کہا کہ انھیں لگا جیسے ان کا گھر گرا دیا گیا ہو۔ ’میں سوچتا تھا کہ میں وہاں ایک دن جاؤں گا تاکہ اپنا آپ دوبارہ حاصل کر سکو۔ میرے لیے یہ ایک باب کے خاتمے جیسا ہوتا۔‘ 

انھوں نے کہا کہ ’ہماری غلامی کی نشانی اس جیل کی تباہی ہماری آزادی کی تباہی بھی ہے۔‘ 

یاسین کے خیال میں دولتِ اسلامیہ نے یہ جیل تباہ کر کے شامی حکومت کی بڑی مدد کر دی ہے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours