امریکی صدر براک اوباما مبینہ طور پر عراق میں مزید فوجی بھیجنے کی منظور دینے کی تیاری کر رہے ہیں، جن کا مقصد عراق میں دولت اسلامیہ کے خلاف برسر پیکار مقامی فوجوں کو تربیت فراہم کرنا ہے۔
امریکی حکام کے مطابق وہ 500 مزید فوجی بھیجنے کے علاوہ عراقی صوبہ انبار میں ایک نئے تربیتی مرکز کا قیام بھی زیرغور ہے۔
گذشتہ دنوں صدر براک اوباما کا کہنا تھا کہ اسلامی شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے کنٹرول میں علاقوں کا قبضہ چھڑانے کے لیے عراقی حکومت کی مدد کرنے کے حوالے سے امریکہ کے پاس اس وقت کوئی پالیسی نہیں ہے۔
دولت اسلامیہ نے امریکی فضائی حملوں کے باوجود عراق میں مزید علاقوں پر اپنا قبضہ قائم کیا ہے۔
مئی میں شدت پسندوں نے عراق کے سب سے بڑے صوبے انبار کے دارالحکومت رمادی پر قبضہ کر لیا تھا، اس کے علاوہ شام کے شہر تدمر اور اس کے قریب واقع قدیم شہر پیلمائرا بھی ان کے قبضے میں چلا گیا ہے۔
امریکہ کے نیشنل سکیورٹی کونسل کا کہنا ہے کہ اب وہ ’عراقی سکیورٹی فورسز کو تربیت فراہم کرنے میں تیزی لانے اور انھیں مسلح کرنے کے بارے میں غور کر رہی ہے۔
نیشنل سکیورٹی کونسل کے ترجمان ایلسٹر باسکی نے کہا ہے کہ ’ان میں مزید تربیت کار بھیجنا بھی شامل ہیں۔
امریکی جوائنٹ چیف آف سٹاف، جنرل مارٹن ڈیمپسی نے یروشلم کے دورے پر نامہ نگاروں کو بتایا کہ عراق میں صدر اوباما کی فوجی حکمت عملی میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں ہو گی۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ سروس چیفس نے ’تربیت اور مسلح کرنے کے بارے میں کچھ تجاویز پیش کی ہیں۔

امریکی حکام کا خیال ہے کہ رمادی میں شکست کی بڑی وجہ عراقی فوجوں میں تربیت کا فقدان ہے۔
واضح رہے کہ اس وقت تقریبا تین ہزار امریکی فوجی بمشمول تربیت کار اور مشیر عراق میں تعینات ہیں۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours