سائنسدانوں کو پہلی مرتبہ چمپینزی یا لنگوروں کی الکحل سے رغبت کے ثبوت ملے ہیں۔
محققین نے مغربی افریقہ کے ملک گنی میں لنگوروں کے پام کے درختوں پر چڑھنے اور وہاں موجود قدرتی طور پر تیار شدہ ’پام سیپ‘ یا نشہ آور ایتھینول پینے کے مناظر ریکارڈ کیے ہیں۔
ان لنگوروں میں سے کچھ بہت دیر تک یہ مشروب پیتے رہے اور شراب کی ایک بوتل جتنا مشروب پینے کے بعد واضح طور پر ان پر اس کے اثرات دکھائی دیے اور وہ جلد ہی مدہوش ہو کر سو گئے۔
ان شواہد سے محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ الکحل کے لیے رغبت صرف انسان میں ہی نہیں پائی جاتی بلکہ اس کا دائرہ جانوروں تک پھیلا ہوا ہے۔
اس 17 سالہ تحقیق کے رائل سوسائٹی اوپن سائنس نامی رسالے میں شائع ہونے والے نتائج میں کہا گیا ہے کہ رفیا پام نامی درختوں پر قدرتی طور پر تیار ہونے والا نشہ آور مادہ چمپینزیوں کو سب سے پسند آیا۔
یہ تحقیق گنی میں بساؤ کے علاقے میں کی گئی جہاں کی آبادی پام کے درختوں سے یہ نشہ آور مشروب حاصل کرتی ہے، جسے ’پام وائن‘ کہا جاتا ہے ۔
اس کے لیے یہ درختوں کے تنوں پر کٹاؤ کر کے وہاں پلاسٹک کے برتن لگا دیتے ہیں جن میں اس سے نکلنے والا رس جمع ہوتا رہتا ہے۔
علاقے میں کام کرنے والے محققین نے چمپینزیوں کو گروہوں کی شکل میں ان درختوں پر چڑھتے اور یہ رس پیتے دیکھا۔
اس عمل کے لیے وہ درخت کے پتوں کو چبا کر انھیں ایک سفنج کی شکل دیتے اور انھیں رس میں ڈبو کر چوستے پائے گئے۔
محققین کی ٹیم کی سربراہ ڈاکٹر کمبرلی ہاکنگز کے مطابق کچھ لنگوروں نے تو 85 ملی لیٹر الکحل پیا جو شراب کی تقریباً ایک بوتل کے برابر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس ’شراب نوشی‘ کے چمپینزیوں پر واضح اثرات دکھائی دیے اور ان میں سے کچھ تو یہ پیتے ہی مدہوش ہوگئے جبکہ ایک نر چیمپینزی خاص طور پر بےچین دکھائی دیا۔
سینٹ اینڈیوز یونیورسٹی کی پروفیسر کیتھرین ہوبیٹر کا کہنا ہے کہ اس رویے پر مزید اور جامع تحقیق شاندار بات ہوگی جیسے کہ کیا چمپینزی الکحل کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں یا زیادہ مشروب پینے والے لنگور ’ہینگ اوور‘ یا نشہ اترنے کا شکار تو نہیں ہوتے۔
انھوں نے کہا ’تحقیق کے نتائج جو بھی ہوں یہ بات طے ہے کہ 60 برس کی تحقیق کے بعد بھی یہ چمپینزی ہمیں مسلسل حیران ضرور کر رہے ہیں۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours