اکثر لوگ اسے یہ کہہ کر رد کر دیتے ہیں کہ یہ بیماری صرف ترقی یافتہ ممالک میں ہوتی ہے جہاں ہر کوئی مشہور شخصیات جیسا دکھائی دینا چاہتا اور اس کوشش میں گھنٹوں آئینے کے سامنے کھڑا رہتا ہے۔

لیکن برطانوی کالم نگار سوزانہ جولی کہتی ہیں کہ اپنی شکل و صورت کے بارے میں سوچ کر پریشان ہونا یا ’باڈی ڈسمورفِک ڈس آرڈر‘ واقعی ایک بیماری ہے جس سے دنیا بھر کی پچاس فیصد آبادی متاثر ہے اور اس میں سے اکثر اپنا علاج خود ہی شروع کر دیتے ہیں اور کئی تو بار بار پلاسٹک سرجری کرواتے رہتے ہیں۔

گلیمر کی دنیا کی مشہور سابق ماڈل الیسیا ڈُوال کے بارے میں مشہور ہے کہ انھوں نے دس لاکھ ڈالر سے زیادہ رقم خرچ کی اور تین سو سے زیادہ مرتبہ چھوٹی موٹی سرجری کرائی، لیکن دو سال قبل ان کا کہنا تھا کہ انھیں پلاسٹک سرجری کی لت اس وجہ سے پڑی کہ انھیں ’باڈی ڈسمورفِک ڈس آرڈر‘ یا ’بی ڈی ڈی‘ کا مرض لاحق تھا مگر اس کی تشخیص نہیں ہو سکی تھی۔

بی ڈی ڈی کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ آپ اپنے ذہن میں بٹھا لیتے ہیں کہ آپ اچھے نہیں دکھائی دیتے یا آپ کی شکل و صورت میں کوئی مسئلہ ہے۔

ان علامات کا آغاز عموماً بلوغت کے وقت ہوتا ہے۔

47 سالہ مِنّی رائٹ تقریباً ساری عمر اس مرض کا شکار رہیں ہیں۔’یہ علامات اس وقت ظاہر ہونا شروع ہوئیں جب میں گیارہ سال کی تھی اور مجھے سکول میں دوسرے بچوں نے تنگ کرنا شروع کر دیا تھا۔ ہر کوئی کہتا تھا کہ میری ناک بہت بڑی ہے۔‘

مِنّی کہتی ہیں کہ انھوں نے ’شیڈنگ‘ والا میک اپ لگانا شروع کر دیا اور اپنے سر کو ایسے زاویے پر رکھنا شروع کر دیا کہ کسی کو تصویروں میں ان کی ناک دکھائی ہی نہ دے۔
خود نمائی کا طعنہ درست نہیں

بی ڈی ڈی میں مبتلا لوگ اکثر اس خوف سے کسی سے مدد نہیں لیتے کہ سننے والا ان کی بات کو یہ کہہ کر رد کر دےگا کہ انھیں ہر وقت اچھا لگنے کی فکر کھائے جا رہی ہے۔

ڈاکٹر ڈیوڈ ویل کا شمار ان مشہور ماہرین میں ہوتا ہے جنھیں بی ڈی ڈی پر عبور حاصل ہے۔ بیس برس پہلے ان کی ایک مریضہ نے خود کشی کر لی تھی، جس کے بعد انھوں نے اس مرض پر بہت تحقیق کی۔

ڈاکٹر ڈیوڈ ویل کہتے ہیں کہ ’ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ ہم بی ڈی ڈی کے شکار لوگوں میں مرض کو ابتدائی مراحل میں پکڑ لیں کیونکہ ان علامات کا علاج اس وقت قدرے آسان ہوتا ہے جب تک یہ مریض کے ذہن میں راسخ نہیں ہوجاتا کہ وہ بدصورت ہے۔’یاد رکھنے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ بی ڈی ڈی قابل علاج ہے۔

اکثر بی ڈی ڈی کے لیے ذہنی دباؤ یا ڈیپریشن کی ادویات اور رویہ تبدیل کرنے والا علاج (بی ہیویئر تھیراپی) اکھٹے تجویز کیا جاتا ہے۔ عموماً یہ علاج کافی عرصے تک کرانا پڑتا ہے۔

علاج کے دنوں میں بی ڈی ڈی میں مبتلا لوگ اپنی شکل و صورت کی نام نہاد خرابیوں کا ’علاج‘ پلاسٹک سرجری سے بھی کر تے رہتے ہیں۔

مِنّی کہتی ہیں کہ ’میں بھی اپنی ناک کا کچھ کرنا چاہتی تھی لیکن اس وقت میں کم عمر تھی۔ چنانچہ جب میری 18ویں سالگرہ آئی تو میں نے سرکاری ہسپتال کی بجائے ذاتی طور پر پلاسٹک سرجری کرا لی۔

’شروع شروع میں تو میں خوش تھی لیکن بعد میں یہ خوشی نہ رہی۔‘

’مجھے ایسا لگا جیسے میں اپنے کمرے کا فرنیچر اِدھر سے اُدھر کر رہی ہوں اور اصل مسئلہ اپنی جگہ قائم ہے۔ بس اتنا ضرور ہوا کہ میں مختلف لگنے لگی۔‘

بعد کے برسوں میں مِنّی کی اداسی اپنا ناک سے ہٹ کر بالوں پر مرکوز ہو گئی اور اپنے بالوں سے مایوسی اس قدر زیادہ ہو گئی کہ وہ خود کشی کرنے کا سوچنے لگیں۔

اعدا وشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی ڈی ڈی کے شکار افراد میں خود کشی کا تناسب عام لوگوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔

ڈاکٹر ویل بھی یہی کہتے ہیں کہ ایسے افراد میں خودکشی کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے اپنے مریضوں میں کم از کم ایک تہائی ایسے تھے جنھوں نے ایک مرتبہ پلاسٹک سرجری ضرور کرائی تھی۔

تاہم ڈاکٹر ویل کا کہنا تھا کہ بی ڈی ڈی کے دس فیصد سے بھی کم مریض اپنی پلاسٹک سرجری سے مطمئن ہوتے ہیں اور ایک سرجری کے بعد وہ جسم کے کسی دوسرے حصے کی سرجری کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتے ہیں اور بعض اوقات کئی مرتبہ پلاسٹک سرجری کروا لیتے ہیں۔

پلاسٹک سرجری کے معروف سرجن سائم وِٹنی کے بقول ’بی ڈی ڈی ایک انتہائی پیچیدہ معاملہ ہے اور پلا سٹک سرجن اس کیفیت کو کبھی بھی پوری طرح نہیں سمجھ سکتے۔‘

میڈیا کو ہمیشہ سے اس الزام کا سامنا رہا ہے کہ لوگ اس سے متاثر ہو کر اپنی شکل و صورت کے بارے میں پریشان ہو جاتے ہیں۔ حالیہ عرصے میں بہترین ’سیلفی‘ لینے کی دوڑ کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔

اس تازہ ترین جائزے کے مطابق 16 سے 25 سال کی عمر کے افراد ایک اچھی سیلفی لینے کے لیے اوسطاً 16 منٹ صرف کرتے ہیں جس دوران وہ اوسطاً سات مرتبہ تصویر اتارتے ہیں۔

تو کیا بہترین دکھائی دینے کا یہ دباؤ لوگوں کی ذہنی حالت پر اثر انداز ہو رہا ہے؟

ڈاکٹر ویلز کہتے ہیں کہ ایسا نہیں کیونکہ ’یہ لکیر کھینچنا مشکل ہے کہاں سے آپ کی جسمانی ساخت سے مطمئن نہ ہونے کا اختتام ہوتا ہے اور کہاں سے بی ڈی ڈی کا مرض شروع ہوتا ہے۔‘

تاہم ڈاکٹر ویل کا کہنا ہے کہ بی ڈی ڈی میں اہم کردار بچے اور ماں کے درمیان خراب رشتے اور اس بات سے ہوتا ہے کہ بچپن میں آپ کو آپ کی شکل و صورت کے حوالے سے مذاق کا نشانہ بنایا گیا تھا یا نہیں۔

’میڈیا کے دباؤ سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کا کردار خاصا کم ہے۔‘

بی ڈی ڈی کے ماہر ڈاکٹر کلارک کا خیال ہے کہ سکولوں میں اس حوالے سے زیادہ تعلیم کی ضرورت ہے۔

’بچوں میں بتایا جانا چاہیے کہ میڈیاں میں مختلف لوگوں کی جو تصاویر دیکھتے ہیں اس میں میک اپ وغیرہ کا کتنا دخل ہوتا ہے۔‘

اگر آپ معاشرتی حوالے سے مضبوط شخصیت نہیں ہیں تو آپ بہت آسانی سے میڈیا کے دباؤ میں آ سکتے ہیں۔‘۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours