16 دسمبر سنہ 2014 کو آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گردوں کے حملے میں 140 سے زائد بچے ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے جن میں سے اکثر اب بھی مناسب علاج کے منتظر ہیں۔

زخمی ہونے والے 21 بچے اور اُن کے والدین گذشتہ پانچ دنوں سے لاہور میں علاج کے غرض سے موجود ہیں جن میں سے سات بچے ایسے ہیں جن کی متعدد بار سرجری ہو چکی ہے اور اب بھی اُن کو مزید سرجری کی ضرورت ہے لیکن ان بچوں کا ابھی تک باقاعدہ علاج شروع نہیں ہو سکا۔

ان بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد زخمیوں کے لیے وفاقی حکومت، آرمی چیف اور خیبر پختونخواہ حکومت کی جانب سے ہر طرح کے علاج معالجے کی یقین دہانی تو کروائی گئی تھی لیکن اب بھی انھیں مناسب سہولتیں نہیں مل رہی ہیں۔اس حوالے سےاتوار کو ہلاک اور زخمی ہونے والے بچوں کے والدین پر مشتمل شہدا و غازی فورم پشاور کے ارکان نے لاہور کے ایک نجی ہوٹل میں پریس کانفرنس کی۔

شہدا و غازی فورم پشاور کے کوآرڈنیٹر قیصر علی کا کہنا ہے کہ حکومت پنجاب کی جانب سے بچوں اور اُن کے والدین کو رہائش تو فراہم کی گئی ہے لیکن وزارتِ صحت کی جانب سے کوئی مدد فراہم نہیں کی جا رہی ہے۔

کوارڈنیٹر قیصر علی نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے رکن صوبائی اسمبلی خواجہ عمران نذیر نے پہلے دن متاثرین سے ملاقات کر کے اُنھیں یقین دہانی کروائی تھی کہ زخمی بچوں کے علاج کے لیے دو دِن میں میڈیکل بورڈ بنا دیا جائے گا لیکن ابھی تک نہ تو کوئی میڈیکل بورڈ بنا اور نہ ہی دوبارہ اُن سے رابطہ کیا گیا جبکہ تمام بچےگذشتہ تین دنوں سے میو ہسپتال کے چکر لگا رہے ہیں۔شہدا و غازی فورم پشاور ویمن ونگ کی صدر ہما عرفان کا کہنا ہے کہ بعض بچوں کی بروقت سرجری نہ ہونے کی وجہ سے اُن کے معذور ہونے کاخطرہ ہے کیونکہ چند بچے پہلے ہی معذور ہو چکے ہیں اور وہ بچوں کے ساتھ لاہور اِس اُمید سے آئے ہیں کہ اُن کا اچھی طرح جسمانی اور نفسیاتی علاج ہو سکے۔ہما عرفان نے کہا کہ ہسپتال عملے کے چند اہلکاروں کا رویہ مناسب نہیں ہے کیونکہ وہ اُن سے کہتے ہیں کہ آپ چھ ماہ کے بعد علاج کے لیے کیوں آئے ہیں پہلے کیوں نہیں آئے؟ یہاں تو آپ کا علاج ہی نہیں ہو سکتا ہے۔‘

ہما عرفان نے حکومت سے درخواست کی کہ وہ تمام متاثرہ بچوں کو ہرممکن علاج فراہم کرے اور وہ بچے جن کی سرجری ملک کے اندر نہیں ہو سکتی اُن کو باہر بھیجا جائے تاکہ بچےمعذور ہونے سے بچ سکیں۔پشاور سکول حملے میں متاثر ہونے والے تین بچوں کے والد میاں عامر کاکا خیل نے کہا کہ اُن کا ایک بچہ بہرہ ہو چکا ہے جبکہ دوسرے دونوں بچے شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہے جس کے باعث وہ نہ تو سکول جا رہے ہیں اور نہ ہی رات کو سو سکتے ہیں جس کے باعث وہ شدید پریشان ہیں اور چاہتے ہیں کہ اُن کے بچوں کا جلد سے جلد علاج کیا جائے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours