شام کے شمالی علاقے میں کرد جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ انھوں نے دولت اسلامیہ کے گڑھ رقہ شہر کے شمال میں واقع ایک اہم فوجی اڈے پر قبضہ کر لیا ہے۔

کردش پاپولر پروٹیکشن یونٹ یا وائی پی جی کو امریکی فضائیہ اور دیگر باغی گروہوں کی بھی حمایت حاصل ہے۔

کرد جنگجوؤں کی جانب سے اس اڈے پر قبـضے کا دعویٰ شام اور ترکی کے ایک سرحدی راستے پر قبضے کے ایک ہفتے بعد سامنے آیا ہے۔

اس سرحدی راستے پر قبضے کے باعث دولت اسلامیہ کی ایک اہم سپلائی لائن کٹ گئی تھی۔

کرد جنگجوؤں کے ترجمان کا کہنا تھا کہ انھوں نے دولت اسلامیہ کے زیرانتظام علاقے میں واقع لیوا (بریگیڈ) 93 بیس کا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔

ترجمان ریدر ژلیل کا کہنا تھا کہ اب وائی پی جی رقہ کے شمال میں 50 کلومیٹر دور عین عیسیٰ کے مقام پر ہے۔

انھوں نے کہا: ’انھیں (دولت اسلامیہ کو) شکست ہو چکی ہے۔‘

واضح رہے کہ گذشتہ سال اس فوجی اڈے پر دولت اسلامیہ نے قبضہ کر لیا تھا اور یہ رقہ کو مغرب کی جانب صوبہ حلب اور مشرق کی طرف صوبہ ہسکہ کو زمینی راستہ فراہم کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔

برطانیہ میں قائم مبصرین کے گروپ سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائیٹس کے ترجمان رمی عبدالرحمان کا کہا ہے کہ دولت اسلامیہ کی دفاعی سرحد ‘رقہ کے دروازوں تک دھکیل دیا گیا ہے۔‘

گذشتہ ہفتے تل ابیض پر قبضے کے بعد کرد اب ترکی کی سرحد سے ملحق اپنے زیر انتظام دوسرے علاقوں سے رابطے میں ہیں جو کہ مشرق میں عراق سے لے کر مغرب میں کوبانی تک پھیلا ہوا ہے۔

تاہم لڑائی کی وجہ سے ہزاروں شہریوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر ترکی جانے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔

مبصرین کے مطابق ترکی کی سرحد سے ملحق قصبے تل ابیض دولت اسلامیہ کے لیے اہم ترین سرحدی راستہ تھا۔

واضح رہے کہ رقہ تاحال دولت اسلامیہ کا اہم ترین مرکز ہے جہاں سے شام اور عراق کے علاقوں کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours