جنوبی چین کے شہر یولن میں جانوروں کے حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مخالفت کے باوجود کتوں کاگوشت کھانے کے سالانہ میلے کا آغاز ہو گیا ہے۔

چین کی سرکاری میڈیا کے مطابق گرمی کو بھگانے کا تہوار منانے کے لیے گوانگشی صوبے کے یولن میں لیچی اور کتے کے میلے میں تقریبا 10 ہزار کتوں کو ذبح کیا جائے گا۔

جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ جانورں کی ہلاکت ظالمانہ ہے اور انھوں نے اس کے خلاف مظاہرہ بھی کیا ہے، انٹرنیٹ پر مہم بھی چلائی ہے یہاں تک کہ کتوں کو بچانے کے لیے انھیں خریدا بھی ہے۔

یولن کے دکاندار اور رہائیشیوں کا کہنا ہے کہ جانوروں کو انسانیت کے ساتھ مارا جاتا ہے۔اس میلے کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں کئی سیلبریٹیز بھی شامل ہیں اور انھوں نے ہیش ٹیگ StopYuLin2015 # کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا ہے۔

کتے کھانے کی یہ روایت چار، پانچ سو سال قدیمی کہی جاتی ہے جو چین اور جنوبی کوریا کے علاوہ مختلف ممالک میں جاری ہے۔ چینی خبر رساں ادارے شن ہوا کے مطابق اس تقریب کو گرمی کو دور رکھنے کے لیے منایا جاتا ہے۔

تاہم شن ہوا نے کہا کہ یولن میں یہ تقریب حال ہی میں شروع ہوئی ہے۔شہر کے حکام نے اس تقریب سے خود کو ‏علیحدہ کر رکھا ہے تاہم انھوں نے مائکرو بلاگنگ سائٹ سائنا ویئبو پر لکھا ہے کہ ’یولن میں بعض رہائیشیوں کی یہ عادت ہے کہ وہ گرمی کو دور رکھنے کے لیے ایک جگہ اکٹھا ہوتے ہیں اور ساتھ میں لیچی اور کتے کا گوشت کھاتے ہیں۔‘

اس نے لکھا کہ ’گرمی بھگانے کی لیچی اور کتے کے گوشت کی تقریب ایک تجارتی فقرہ ہے اور اس شہر نے کبھی بھی کتے کے گوشت کی تقریب منعقد نہیں کی ہے۔‘

حالیہ برسوں میں جانوروں سے پیار کرنے والے بعض افراد نے کچھ کتے خریدے ہیں تاکہ انھیں بچایا جا سکے۔

مقامی میڈیا کے مطابق یانگ شیاین نے تقریبا 11 سو ڈالر خرچ کرکے 100 کتے کی جان بچائی۔بیجینگ میں بی بی سی کی نمائندہ سیلیا ہیٹن کا کہنا ہے کہ اس طرح کے حالات حکومت کو مشکل میں ڈال دیتے ہیں۔ کتے کے گوشت کو بڑے پیمانے پر کھانے کے بارے میں بیرونی میڈیا میں منفی تاثرات سامنے آتے ہیں اور حکام کو شرمندگی کا سامنا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ کتے کے گوشت کی بزنس پر غیر قانونی طریقوں کے استعمال کا الزام ہے کہ وہ پالتو کتے کو بھی کھانے کے لیے پکڑواتے ہیں۔

دوسری جانب چین میں جانوروں کے حققوق کے کارکنوں نے سوشل میڈیا پر اپنا ایک نٹورک بنا رکھا ہے اور چینی حکام اس قسم کی کسی تحریک کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے تیار نہیں۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours