کچھ عرصہ قبل یورپ اور ایشیا میں زرد چھاتی والی چڑیا انتہائی کثیر تعداد میں پائی جاتی تھی اور اب یہ ناپید ہونے کے قریب ہے۔ ان چڑیوں کو چینی قوم بڑی رغبت سے کھاتی ہے۔
سن 1980 سے قبل زرد چھاتی والی چڑیا کئی یورپی اور ایشیائی ملکوں میں خاص طور پر کھیتوں اور کھلیانوں میں بیج چگنے کے لیے مشہور تھی۔ ایک تازہ ریسرچ کے مطابق سن اسی کی دہائی کے بعد سے چڑیوں کی اِس نسل میں حیران کن کمی واقع ہوئی ہے۔ گزشتہ 35 برسوں میں نوے فیصد ایسی چڑیائیں چینی قوم کی لذتِ کام و دہن کے کام آ چکی ہیں۔ اس پرندے کو چینی قوم چاولوں کے ساتھ بہت شوق سے کھاتے ہیں اور اِس باعث اِس کا چین میں مقبول نام ’رائس برڈ‘ ہے۔
تازہ ریسرچ میں بتایا گیا ہے کہ یہ چڑیا اب یورپ، جاپان اور روس کے وسیع علاقے میں تقریباً ناپید ہونا شروع ہو گئی ہے۔ چین نے اِس چڑیا کی کمیابی کا احساس سن 1997 میں کر لیا تھا اور سارے ملک میں اِس کے شکار پر پابندی عائد کر دی گئی تھی لیکن پابندی کے باوجود چینی اِس چڑیا کے شکار سے کہاں گریز کرتے ہیں۔ اس چڑیا کے ہمراہ اِس جیسے اور دوسرے بہت سارے سریلی آوازوں والے پرندوں کا شکار جاری و ساری ہے اور بلیک مارکیٹ میں یہ وافر مقدار میں دستیاب ہیں۔
ریسرچ میں بتایا گیا کہ اِن پرندوں کے شکار میں اضافے کی ایک وجہ جنوب مشرقی ایشیا میں پیدا ہونے والی اقتصادی ترقی ہے۔ عام لوگوں کے پاس بھی دولت اتنی ہے کہ وہ اب ضیافتوں کے علاوہ بھی خوراک خوری کرتے ہوئے قدیمی پرتکلف اشیاء کا استعمال عام طور پر کرنے لگے ہیں۔ ضیافتوں میں گُلچھڑے اُڑانا تو عام ہو گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سن 2001 میں چین کے جنوبی صوبے گوانگ ڈونگ میں زرد چھاتی والی دس لاکھ چڑیا کو چینی لوگوں نے معمول کی خوراک کا حصہ بناتے ہوئے ہڑپ کر لیا تھا۔ کوہِ ہمالیہ کی ترائیوں میں افزائش پانے والے اِس پرندے کو سخت سرد موسم پسند نہیں اور وہ جنوب مشرقی ایشیا کے گرم علاقوں میں ہجرت کر جاتے ہیں۔
جرمنی کی مُنسٹر یونیورسٹی کے ڈاکٹر ژوہانس کامپ اِس چڑیا کے بتدریج کم ہونے کی ریسرچ کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے جریدے برڈ لائف کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جس بڑی تعداد میں اس نسل کی چڑیا میں کمی وقوع پذیر ہوئی ہے، یہ ناقابلِ یقین اور ناقابلِ نظیر ہے۔ ڈاکٹر کامپ کے مطابق اِس پرندے کے شکار میں بہت زیادہ لوگ ملوث ہیں اور اِس عمل کو روکنا ازحد ضروری ہے وگرنہ یہ چڑیا جنگلات اور کھیتوں سے غائب ہو کر صرف چڑیاگھروں ہی میں دکھائی دے گی۔ اِس پرندے کو سن 2013 میں انٹرنیشنل یونین برائے تحفظِ نیچر نے ناپید ہونے والے جانروں اور پرندوں میں شامل کر دیا ہے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours