سپریم کورٹ نے ایک کمسن بچے کے قتل کے مقدمے میں موت کی سزا پانے والے شفقت حسین کی پھانسی پر عمل درآمد روکنے سے متعلق دائر درخواست مسترد کر دی ہے۔
عدالت کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے نظرِ ثانی کے فیصلے پر دوبارہ نظرِ ثانی نہیں ہو سکتی۔
چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے بدھ کو پھانسی کی سزا پر عمل درآمد روکنے سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔
درخواست گزار کے وکیل ڈاکٹر طارق حسن کا کہنا تھا کہ اگر عدالت کی طرف سے دی جانے والی سزائے موت پر دس سال تک عمل درآمد نہ ہو تو آئین کے آرٹیکل 45 اور عالمی قوانین کے تحت اس کا یہ بنیادی حق ہے کہ اس کی سزا پر عمل درآمد روک دیا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کے سامنے ملکی قوانین ہیں اور انھی قوانین کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے دیے جاتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ شفقت حسین کی کم عمری کا معاملہ اس سے پہلے بھی سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اپیل میں اُٹھایا گیا تھا لیکن عدالت نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔
انھوں نے کہا کہ آرٹیکل 45 کے تحت انتظامیہ کیسے مجرم کی عمر کا تعین کر سکتی ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ شفقت حسین کے معاملے میں انتظامیہ کا آگے جانا غیرمعمولی واقعہ ہے اور ایسے حالات میں جب صدر بھی مجرم کی رحم کی اپیل مسترد کر چکے ہوں۔
بینچ میں موجود اعجاز افضل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جب عدالت عظمی کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو کیا صدر یا انتظامیہ کو اس کا از سرنو جائزہ لینے کا اختیار حاصل ہے۔
درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ غیر معمولی حالات میں سپریم کورٹ اپنے ہی فیصلے پر نظرِ ثانی کرسکتی ہے تاہم چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت میں شفقت حسین کا مقدمہ ختم ہوچکا ہے۔
اس کے بعد عدالت نے شفقت حسین کی پھانسی پر عمل درآمد روکنے سے متعلق درخواست مسترد کر دی۔
خیال رہے کہ اس سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ بھی مجرم شفقت حسین کی پھانسی پر عمل درآمد سے متعلق درخواست مسترد کرچکی ہے۔
24 سالہ شفقت حسین پر سنہ 2001 میں ایک پانچ سالہ لڑکے عمیر کو قتل کرنے کا الزام ہے اور انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اسے سنہ 2004 میں پھانسی کی سزا سنائی تھی۔
ان کے وکلا کا کہنا ہے کہ جب شفقت کو سزا سنائی گئی تو وہ نابالغ تھے اس لیے انھیں سزائے موت نہیں دی جانی چاہیے۔
شفقت کا نام ان 17 افراد کی ابتدائی فہرست میں شامل تھا جنھیں دسمبر 2014 میں وزیرِ اعظم پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں کو سزائے موت دینے کے اعلان کے بعد پھانسی دینے کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔
تاہم اس کے بعد سے چار مرتبہ ڈیتھ وارنٹ جاری ہونے کے باوجود ان کی سزا پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours