نوبیل انعام یافتہ سائنسدان سر ٹم ہنٹ اپنے اس بیان کے بعد برطانوی یونیورسٹی کے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں جس میں انھوں نے کہا تھا کہ سائنس میں ’لڑکیوں کے ساتھ مشکل پیش آتی ہے۔
یونیورسٹی کالج لندن (یو سی ایل) کے مطابق سر ٹم ہنٹ لائف سائنسز کی فیکلٹی میں اعزازی پروفیسر کے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں۔
یونیورسٹی کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق ’یو سی ایل تصدیق کرتی ہے کہ سر ٹم ہنٹ لائف نو جون کو عالمی کانفرنس کے دوران صحافیوں سے خواتین کے بارے میں بیان دینے پر سائنسز کی فیکلٹی میں اعزازی پروفیسر کے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں۔
یو سی ایل انگلینڈ کی پہلی یونیورسٹی ہے جس نے خواتین کو مردوں کی برابری کی شرائط پر داخلہ دیا اور یونیورسٹی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ یہ فیصلہ یونیورسٹی کے جنسی برابری کے عہد سے مطابقت رکھتا ہے۔
مستعفی ہونے سے پہلے سر ٹم ہنٹ نے اپنے بیان پر معذرت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا مقصد ایمانداری سے تبصرہ کرنا تھا۔
اطلاعات کے مطابق انھوں نے جنوبی کوریا میں ایک کانفرنس میں کہا کہ ’تجربہ گاہ میں کام کرنے والی خواتین پر جب آپ تنقید کرتے ہیں تو وہ ’رو‘ پڑتی ہیں اور اپنے ساتھ کام کرنے والے مردوں سے انھیں پیار ہو جاتا ہے۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا مقصد کیفیات بیان کرنا تھا لیکن وہ معذرت چاہتے ہیں۔
رائل سوسائٹی کا کہنا ہے کہ سر ٹم کا بیان ادارے کے خیالات کی ترجمانی نہیں کرتا۔
72 سالہ سر ٹم کو فزیالوجی میں ان کی خلیوں کی تقسیم کے عمل پر تحقیق کے صلے میں نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔ انھوں نے سائنس کی عالمی کانفرنس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ’میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ مجھے خواتین سے کن مشکلات کا سامنا رہا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ’جب خواتین لیب میں کام کر رہی ہوتی ہیں تو تین چیزیں ہوتی ہیں۔ آپ کو ان سے پیار ہو جاتا ہے، انھیں آپ سے پیار ہوجاتا ہے اور جب آپ ان پر تنقید کرتے ہیں تو وہ رو پڑتی ہیں۔
بی بی سی کے ریڈیو 4 کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ’میں معافی مانگتا ہوں جو میں نے کہا تھا۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ یہ انتہائی بے وقوفی تھی وہ بھی ان صحافیوں کی موجودگی میں۔
سنہ 1991 میں رائل سوسائٹی کے رکن بنے والے برطانوی بائیو کیمسٹ سر ٹم کا کہنا تھا کہ انھوں نے یہ بات ’مذاق‘ میں کہی تھی لیکن سننے والوں نے اسے ’انتہائی سنجیدگی‘ سے لیا۔
انھوں نے مزید کہا کہ’یہ بات درست ہے کہ لیب میں کام کرنے والے لوگوں کو مجھ سے پیار ہو گیا اور مجھے لوگوں سے، اور یہ سائنس کے لیے انتہائی خطرناک ہے کیونکہ یہ بہت ضروری ہے کہ لیب میں کام کرنے والے ہر وقت ہوشیار رہیں۔
سر ٹم کا کہنا تھا کہ’میں نے دیکھا ہے کہ اس قسم کے جذباتی الجھاؤ سے زندگی مشکل ہو جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ’میں بہت بہت معافی مانگتا ہوں کیونکہ یہ بیان اوروں کو ناگوار گزرا، میرا مقصد یہ نہیں تھا میرا مقصد ایماندار ہونا تھا۔
سٹی یونیورسٹی کی ایک لیکچرار کونی سینٹ لوئس نے جو جنوبی کوریا میں اُس وقت سننے والوں میں موجود تھیں، بی بی سی کو بتایا ہے کہ’کوئی بھی ہنس نہیں رہا تھا اور سب کے چہرے پر حیرانی تھی۔
انھوں نے مزید کہا کہ’یہ بہت حیران کن تھا۔ میں نے سوچا کہ آپ کے خیال میں آپ کس دنیا میں رہتے جو آپ 2015 میں ایسے بیانات دے رہے ہیں۔
لندن یونیورسٹی کالج کی ڈاکٹر جینیفر روہن نے کہا کہ ’یہ صاف واضح ہے کہ وہ مذاق کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن لوگ اس بیان کو سچ سمجھ لیں گے اور میں جانتی ہوں کہ وہ نوبیل انعام یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے انسان بھی ہیں لیکن اپنے شعبے کے سفیر ہونے کے ناطے ان کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔
برٹش سائنس ایسوسی ایشن کے چیف ایگزیکٹو عمران خان کا کہا تھا کہ ’سر ٹم کا بیان لا پروایانہ ہے۔
سر ٹم ہنٹ کو سنہ 2001 میں نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔

Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours